لکھنو کے منکا مشور مندر میں افطار کے خلاف کئی ہندو تنظیموں کے کارکنان نے ہنگامہ کر روڈ جام کر دیا اور جام کر نعرے بازی کی بتایا جا رہا ہے کہ وشو ہندو پرشاد کے کارکنان نے اس مقام کا شدھی کرن کی کوشش کی جہاں افطار کرایا گیا تھا، ہنگامہ کرنے والوں کو پولس نے حراست میں لے لیا، جس کے بعد مشتعل کارکنان نے سڑک جام کر دی۔
لکھنؤ: گومتی ندی کے کنارے منکا میشور مندر کی طرف سے کرایا گیا وہ افطار جس سے ہندوسان کی قدیمی گنگا جمنی تہذیب نمایاں ہوئی تھی ہندووادیوں کے گلے سے اترنا مشکل ہو رہا ہے۔ افطار کے خلاف ہندو تنظیمیں سڑکوں پر اتر آئیں اور نعرے بازی کی۔ اتنا ہی نہیں جس مقام پر افطار کرایا گیا تھا وی ایچ پی کارکنان نے اس جگہ کا شدھی کرن کرنے کی کوشش کی اور سڑک جام کر دی۔
گومتی کے کنارے سیکڑوں سال قدیمی شیو مندر منکا میشور کی پجارن دیوی گری نے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے اتوار کی شام کو روزہ افطار کرایا تھا، اس افطار میں ہندوؤں کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی تھی۔
افطار پارٹی کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے ہندو تنظیموں کے کارکنان نے جب اس مقام کے شدھی کرن کی کوشش کی جہاں افطار کرایا گیا تھا تو انہیں پولس نے حراست میں لے لیا اس کے بعد مشتعل کارکنان نے سڑک جام کر کے مظاہرہ کیا۔ نوبھارت ٹائمز کی روپورٹ کے مطابق بدھ یعنی آج سناتن مہاسبھا نامی تنظیم نے ’ہندو مخالف سنتوں‘ کے خلاف ریلی کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔پولس کی طرف سے حراست میں لئے گئے وشو ہندو دل کے کارکنان نے لکھنؤ کی حسن گنج کوتوالی میں بھی جم کر ہنگامہ کیا۔ کارکنان کوتوالی کے احاطہ میں بیٹھ گئے اور وہاں بھی نعرے بازی کی۔ پولس نے امبوج نگم سمیت 6 افراد کو حراست میں لیا تھا اور ان کے موبائل بھی ضبط کر لئے ہیں۔
اطلاع ملتے ہی کئی ہندو تنظیموں سے وابستہ افراد کوتوالی پہنچ گئے اور حراست میں لئے گئے لوگوں کو چھوڑنے کا مطالبہ کرنے لگے۔ جب پولس نے انہیں نہیں چھوڑا تو انہوں نے ڈالی گنج بازار میں سڑک جام کر دی۔ معاملہ کی اطلاع ملنے پر سی او علی گنج دیپک کمار سنگھ موقع پر پہنچے اور آس پاس کے کئی تھانے کی پولس کو طلب کر لیا۔ دیکھتے دیکھتے پورا علاقہ چھاونی میں تبدیل ہو گیا۔ سی او علی گنج نے سمجھا بجھا کر جام کھلوایا اور حراست میں لئے گئے افراد کو نجی مچلکہ پر رہا کر دیا۔ وشو ہندو دل کے صدر امبوج نگم نے مہنت دیوی گری کے خلاف تحریر بھی دی ہے۔