سعودی عرب میں کورونا وائرس کے جُوں جُوں کورونا کے مریضوں کی گنتی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹر اور نرسوں کی آزمائش بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ کئی ڈاکٹروں کی نجی زندگی بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور وہ اپنے گھر والوں کے قریب بھی نہیں جا سکتے۔
اپنی جانب بڑھتے بچوں کو بھی گلے لگانا ان کے لیے ممکن نہیں رہا۔کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ ایسی صورت میں دیگر افراد بھی کورونا کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اُردو نیوز نے عربی اخبار عکاظ میں شائع ایک ڈاکٹر کی بپتا شائع کی ہے جس میں ڈاکٹر محمد فلمبان نے کورونا کے باعث پیدا ہونے والے حالات بیان کیے ہیں۔
ڈاکٹر محمد فلمبان ایئرپورٹس کلینکس کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے اخبار کو بتایا کہ کورونا کا علاج کرنے والا طبی عملہ احتیاطی تدابیر اپنانے کے باعث اپنے والدین اور بیوی بچوں سے ملنے سے بھی محروم ہو گیا ہے۔
ڈاکٹر فلمبان نے بتایا کہ وہ بھی اس کرب سے گزر رہے ہیں کیونکہ اگر ان کی وجہ سے کسی کو وائرس ہو گیا تو وہ ساری زندگی دُکھی رہیں گے۔ فلمبان کا کہنا تھا کہ میں ریاض میں مقیم ہوں۔ میرا مختصر سا خاندان ہے،
بیوی اور ایک بیٹا ۔پہلے دن جب میں کلینک سے گھر واپس ہوا توروزانہ کی طرح میرا بچہ مجھ سے ملنے کے لیے دوڑا اور میں نے بھی اسے اپنی آغوش میں بھرنے کے لیے اپنے بازو پھیلا دیئے تھے۔اچانک مجھے کسی انجانی طاقت نے آگے بڑھنے سے روک دیا-
میری آنکھیں بھیگ گئیں اور بڑی مشکل سے میں نے خود کو کنٹرول کر کے بچے کو گھر کے اندر بھیج دیا۔ کورونا کے مریضوں کاعلاج کرنے کے باعث میں نے احتیاطی پر اپنے آپ کو والدین اور بیوی بچوں سے الگ تھلگ کر لیا ہے۔ یہ صورتحال میرے ساتھ ہی نہیں بلکہ ان تمام ڈاکٹروں،
نرسوں اور معاون طبی عملے کے ساتھ ہر روز پیش آرہی ہے جو کورونا کے مریضوں کے علاج میں لگے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر فلمبان کا کہنا تھا کہ میں ان دِنوں الگ تھلگ رہ رہا ہوں میری والدہ کھانا تیار کرکے پولیتھین میں رکھ کر میرے گھر کے دروازے پر رکھ کر چلی جاتی ہیں-
”دستانے کورونا سے بچاتے نہیں، بلکہ خطرہ پیدا کرتے ہیں“
ایک طرح سے کلینک سے واپسی کے بعد سے اگلے روز تک میں گھر کے قرنطینہ میں بند ہوجاتا ہوں۔میں نے والدین سے بصد احترام گزارش کی ہے کہ جب تک کورونا کا خطرہ ٹل نہیں جاتا، میں ان کے قریب نہیں آ سکتا۔
وہ اس صورت حال کے پیش نظر مجھے معاف کر دیں۔میری بیوی اور بچہ بھی بڑی ذہنی اذیت سے گزر رہے ہیں۔ تاہم اپنے قریبی رشتہ داروں سے دُوری ہی ہم سب کے مفاد میں بہترین ہے۔