اوہ رے تال ملے ندی کے جل میں۔۔ ندی ملے ساگر میں۔۔۔ ساگر ملے کون سے جل میں۔۔۔ کوئی جانے نہ۔۔ 1968 کی فلم انوکھی رات کے نغمہ نگار اندیور کا یہ نغمہ جے پور کے ناہرگڑھ سینکچوری میں بنے ساگر سروور پران دنوں ایک دم طنز ثابت ہو رہا ہے۔ کبھی آمیر ریاست کیلئے پینے کا پانی مہیا کرانے والا ساگر سروور ریاست بھر میں بارش کے اچھے دور کے باوجود سوکھا ہے۔ چاروں طرف جم کر بارش ہوئی اور جے پور میں بھی اس کی کمی نہیں رہی ہے۔ لیکن محکمہ جنگلات سے لے کر محکمہ سیاحت اور محکمہ آثار قدیمہ سے لے کر محکمہ واٹر تک اس معاملے میں اپنی نیند نکال رہے ہیں۔
ساگر سروور کبھی آمیر کی خوبصورتی میں 4 چاند لگایا کرتا تھا۔ ناہر گڑھ سینکچوری کی پہاڑیوں کا برسات کا پانی کبھی سمٹ کر اس سروور میں سما جاتا تھا۔ لیکن اس سال گزشتہ 3 سالوں سے ساگر کی سطح گھٹنے کے بعد اس سال یہ پوری طرح سے سوکھ گیا ہے۔ نہ تو گزشتہ 3 سال کی برسات کا پانی ساگر سروور میں پہنچا نہ ہی اس سال ہوئی اوسط سے بھی اچھی برسات کا پانی وہاں پہنچ پایا ہے۔ آخر اس کے پیچھے کیا وجہ ہے۔ آخر اتنی برسات کے بعد بھی ساگر سروور میں پانی کیوں نہیں آیا۔
دراصل پہاڑوں سے رس کر ساگر تک پہنچنے والا پانی یہاں نہیں آکر راستے میں ہی بکھر رہا ہے۔ شاہی دور میں پہاڑوں کے پانی کو ساگر تک پہنچانے کیلئے بنائے گئے نالے کئی جگہ سے بلاک یعنی بند ہو رکھے ہیں۔ پانی کا پورا راستہ کچرے، مٹی اور لکڑیوں سے رکا ہے۔ اس وجہ سے ناہر گڑھ کی پہاڑیوں میں برسا پانی سروور ساگر میں پہنچنے کے بجائے یوں ہی بیکار پہاڑوں پر ہی پھیل کر بکھر جاتا ہے۔
کچھ مقامی لوگ مسلسل پانی کے راستوں کو درست کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں لیکن محدود وسائل کی وجہ سے ایسا ہو نہیں پا رہا ہے۔ ساگر تک پانی پہنچانے والا یہ نالا شاہی دور میں بنا تھا۔ لیکن اب یہ پورا کچرے سے بھر گیا ہے۔ اسے محکمہ جنگلات کے ذریعے صاف کرایا جانا چاہئے تھا لیکن محکمہ نے اسے صاف کرانے کے بجائے پہاڑوں میں ہی اینیکٹ بنا دئے۔ اس سے پانی پہاڑوں میں ہی رک جاتا ہے یا پھر بکھر جاتا ہے۔ اس کے مد نظر آمیر ریاست کا یہ ساگر سروور پانی کو ترس رہا ہے۔ بہت سارے سیاح یہاں فیملی کے ساتھ ساگر سروور پر پکنک منانے کیلئے آتے ہیں لیکن یہاں آنے کے بعد مایوس ہوکر لوٹ جاتے ہیں۔