کیا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وہی کہتے ہیں جو کوئی ان کے کان میں بول دیتا ہے؟یہ سننے میں عجیب لگتا ہے لیکن انڈیا کے سفارتی حلقوں اور تجزیہ کاروں کے درمیان اسی بارے میں بحث چھڑی ہوئی ہے۔ تازہ معاملہ اس وقت کا ہے جب ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں رومینیا کے صدر کے ساتھ ایک پریس کانفریس سے خطاب کر رہے تھے۔وہاں موجود ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے ایک بار پھر کشمیر کی صورتحال کو ’دھماکہ خیز‘ اور ’مشکل‘ کہہ کر پکارا۔
امریکی صدر کا یہ بیان انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے فون پر بات کرنے کے ٹھیک ایک گھنٹے بعد ہی سامنے آیا۔پریس کانفرنس میں انھوں نے کہا ’کشمیر ایک مشکل مسئلہ ہے جہاں ہندو بھی ہیں اور مسلمان بھی۔ اور میں یہ نہیں کہوں گا کہ ان کے درمیان میل جول ہے۔‘صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان مسئلہ بہت لمبے عرصے سے چل رہا ہے۔
انھوں نے کہا ’میں اس میں ثالثی کی کوشش کر رہا ہوں۔ عمران خان اور نریندر مودی سے میرے اچھے تعلقات ہیں۔ دونوں ہی میرے اچھے دوست ہیں اور دونوں کو اپنے ملک سے پیار ہے۔ اس ہفتے کے اواخر میں انڈیا کے وزیر اعظم سے فرانس میں ملاقات بھی کروں گا۔‘لیکن صدر ٹرمپ نے پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا اسے انڈیا اور پاکستان میں مختلف نظریات سے دیکھا جا رہا ہے۔
انڈیا میں حکمت عملی سے متعلق امور کے تجزیہ کار منوج جوشی کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کی شبیہ کچھ ایسی ہے کہ وہ حکمت عملی کو ٹھیک سے نہیں سمجھتے ہیں کیوںکہ اصل میں تو وہ ایک کاروباری شخصیت ہیں۔
جوشی کے بقول ’انھیں دنیا کی سیاست کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔ وہ جب جو دل میں آتا ہے بول دیتے ہیں۔ وہ آگے پیچھے کچھ نہیں سوچتے ہیں۔ ان کے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ جموں کشمیر میں ہندو مسلم کا مسئلہ ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔‘
لیکن منوج جوشی نے یہ بھی کہا ’اگر امریکہ ثالثی کی بات آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا تو بھی انڈیا اتنا کمزور نہیں ہے کہ وہ امریکہ کی بات مان لے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر انڈیا نے ایسا کیا تو اس کی قیمت اسے دوسری طرح ادا کرنی ہوگی۔
’انڈیا کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ وہ ٹرمپ سے دوستی بھی رکھے اور اس کی بات بھی نہ مانے۔ ان دونوں باتوں سے انڈیا کو زبردست حکمت عملی کے ساتھ نپٹنا ہوگا۔‘وہیں سرحد کی دوسری جانب پاکستان میں بھی ٹرمپ کے بیان پر سیاسی حلقوں میں چرچا ہے۔سابق سفیر اور انڈیا میں پاکستان کے ہائی کمشنر رہنے والے اشرف جہاںگیر قاضی نے بی بی سی کو بتایا ’انڈیا اور پاکستان کے درمیان موجودہ صورت حال دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی بھی وقت جوہری جنگ شروع ہو سکتی ہے۔‘
جہاںگیر قاضی کے بقول ’جموں کشمیر پر امریکہ کی دلچسپی آخر کیوں نہ ہو؟ انڈیا اور پاکستان دونوں کے پاس جوہری ہتھیاروں کی کمی نہیں۔ جنگ کے حالات میں صرف دونوں ملکوں کو ہی نقصان نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا پر اس کا اثر پڑے گا۔ اسی لیے شاید ٹرمپ نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔‘انھوں نے کہا کہ امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات سے پہلے ہی امریکہ، افغانستان سے باہر نکلنا چاہتا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان ایسا کرنے میں اس کی مدد کر سکتا ہے۔
قاضی نے کہا کہ اگر انڈیا اور پاکستان کے درمیان تنازع اور بڑھتا ہے تو ایسی صورت حال میں پاکستان افواج کی واپسی میں امریکہ کی مدد نہیں کر پائے گا۔اس صورتحال میں سب کی نگاہیں اس ہفتے کے آخر میں فرانس میں ہونے والے جی سیون ممالک کے اجلاس پر ہیں، جہاں امریکی صدر ٹرمپ اور انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان ملاقات ہونا طے ہے۔