شاعر انور جلالپوری ایسے گلاب تھے جسکی خوشبو جلالپور کی سرحدوں کو پار کر پوری دنیا میں فیلی اور لوگوں کے دلوں کو مہکایا.
غم میں ڈوبے ہیں نظارے، الودا کہتے ہوئے
کانپتے ہیں لیب ہمارے، الودا کہتے ہوئے
شخصیت تھی آپکی یوں علم و فن کی آبرو
جس ترہ ہوتی ہے پھولوں سے چمن کی آبرو
دل سے اٹھتے ہیں شرارے، الودا کہتے ہوئے
آپکے علم و ہنر کا قدرداں ہاشم بھی ہے
ہے جہاں سب درد میں ڈوبے وہاں ہاشم بھی ہے
ٹوٹنے کو ہے سہارے، الودا کہتے ہوئے
گیتا کو اردو میں پڑھنے والے،ہمارے ملک ہندوستان کی گنگا جمنو تہذیب کے پرچم دار،یش بھارتی اعجاز سے نوازے گئے انور جلالپوری نے 2 جنوری 2018 کو اس دنیا کو الوداس کہہ دیا.
گھاگرا ندی کی آگوش میں ایک ندی بہتی ہے جسے تمسا ندی کے نام سے جانا جاتا ہے.اس ندی کے کنارے پر جب مغل بادشاہ جلالادین محمّد اکبر کا کافلہ روکا تو انہونے اس خطّہ کا نام جلالپور (ضلع امبیڈکر نگر اترپردیش ) رکھا .یہ زمین بہت ہی زرخیز ہے. میرا خیال ہے کہ جب علامہ اقبال نے یہ کہا ہوگا کہ…
نہیں ہوں نہ امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نام ہو تو یہ متی بدی زرخیز ہے ساقی
شعر کہتے ہوئے علامہ اقبال کے دماغ میں جلالپور جیسی ہی کوئی جگہ رہی ہوگی.اس زمین کے گلدستہ میں کی رنگوں اور قسموں کے پھول ہیں. کوئی گلاب ہے تو کوئی گلداودی، کوئی بیلا ہے تو کوئی گیندا،کوئی نرگس ہے تو کوئی نسترن،کوئی چمیلی ہے تو کوئی رات کی رانی وگیرہ وگیرہ …
انہیں پھولوں میں سے ایک پھول وو گلاب ہے جسکی خوشبو جلالپور کی سرحدوں کو چیر کر بھارت ہی نہیں بلکہ تمام جہاں میں فائلی اور لوگوں کے دل اور دماغ کو مہکایا. وہ گلاب کوئی اور نہیں بلکہ دنیا جہاں میں معروف شاعر اور مشہور نا ظم مشاعرہ انور جلالپوری ہیں.انور جلالپوری اپنی شاعری کون الفاظ کی جادوگری سے آزاد رکھکر ہمیشہ سماج کو ایک پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں…
تم پیار کی سوگات لئے گھر سے تو نکلو
راستے میں تمھ کوئی بھی دشمن نہ ملیگا
تم اپنے سامنے کی بھیڑ سے ہوکر گزر جاؤ
کہ آگے والے تو ہرگز نہ دینگے راستہ تمکو
ہمارے سماج میں نئی پیڑھی کے لئے انکی شیری ایک ترہ سے تعلیم کا کام کرتی ہیں.
دشمن کو دعا دے کے یہ دنیا کو بتا دو
باہر کبھی آپے سے سمندر نہیں ہوتا
کچھ واصف تو ہوتا ہے دماغو ں میں دلوں میں
یوں ہی کوئی سکرات و سکندر نہیں ہوتا
انور جلالپوری اپنی جاگتی آنکھوں سے ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھتے تھے جسمیں ظلم و زیادتی اور دہشت کی کوئی جگہ نہ ہو .
ہر ڈیم آپس کا یہ جھگڑا، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کل کیا ہوگا شہر کا نقشہ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
ایک خدا کے سب بندے ہیں ایک آدم کی سب اولاد
تیرا میرا خون کا رشتہ، میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
ہمار ملک الاگف الگ مذہب کا گہوارہ ہے، یہاں ایک دوسرے سے مذہبی اختلافات کے باوجود بھی ہم لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے محبّتوں کے چراغ روشن ہیں.یہ ہماری گنگا جمنی تہذیب کا نتیجہ ہے .
انور جلالپوری کی ہمیشہ کوشش رہتی تھی کہ ہماری اس تہذیب کو کسی کی نظر م لگے اور آپسی بھائی چارہ کا جزبہ پروان چڑھے.
ہم کاشی کعبہ کے رہی،ہم کیا جانے جھگڑا بابا
اپنے دل میں سبکی الفت،اپنا سبسے رشتہ بابا
ہر انساں میں نور خدا ہے ،سری کتابوں میں لکھا ہے
وید ہو یا انجیل مقدّس، ہو قرآن کہ گیتا بابا
آج جہاں شاعری سے حقیقی پیار ختم ہوگیا ہے، وہاں انور جلالپوری کی شاعری می عشق اپنی پوری پاکیزگی کے ساتھے موجود ہے.
ڈھونڈنا گلشن کے پھولوں میں اسی کی شکل کو
وچاند کے آئینہ میں اسکا ہی چہرہ دیکھنا
چاہو تو میری آنکھوں کو آئینہ بنا لو
دیکھو تمھ ایسا کوئی درپن نہ ملیگا
تو میرے پاس تھا یا تیری پرانی یادیں
کوئی ایک شعر بھی تنہا نہیں لکھا مہینے
انور جلالپوری خود کو میر و غالب اور کبیر و تلسی کا اصلی وارث مانتے تھے انکا یہ دعوہ صرف دعوہ نہیں تھا بلکہ وو اسکے لئے مضبوط دلیل بہِ٩ پیش کرتے ہیں .
کبیر و تلسی و رسخاں میرے اپنے ہیں
وراثت ا جفر و میر جو ہے میری ہے
دار و دیوار پی سبزے کی حکومت ہے یہاں
ہوگا غالب کا کبھی اب تو یہ گھر میرا ہے
مہینے ہر عہد کی لفگزوں سے بنائی تصویر
کبھی خسروں کبھی خییام کبھی میر ہوں میں
ہاشم رضا جلالپوری کی قلم سے