اتر پردیش میں گئو کشی کے نام پر قاسم کے قتل کے بعد ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جو اتر پردیش پولیس پر سوالیہ نشان لگاتی ہے.اس تصویر میں بے دم قاسم کو کچھ لوگ ہاتھ پیر پکڈ کر گھسیٹ تے لے جا رہے ہیں اور پولیس آگے آگے چل رہی ہے.اس تصویرر کے بار میں اترپردیش پولس کا کہنا ہے کہ پلكھوا میں قاسم نام کے قتل سے جوڑی جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ جائے حادثہ پر پولس کے فورا ًپہنچنے کے بعد کی ہے، پولس کے مطابق اس شخص کو ہسپتال لے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اتر پردیش پولیس لوگوں کو ایسے ہی ہسپتال پہنچاتی ہے ساتھ ہی پولیس کا کہنا ہے کہ ایمبولینس نہیں ملنے کی وجہ سے اسے ایسے ہی ہسپتال لے جانا پڑا . کیا تینوں پولیس والے وہاں پیدل گئے تھے.کیا اپنی گاڑی سے وہ قاسم کو ہسپتال نہیں لے جا سکتے تھے .
اتر پردیش کے پلكھوا میں گئو کشی کے شک میں قاسم قتل معاملے میں حیران کر دینے والی تصویر سامنے آئی ہے، جس وقت قاسم کو بھیڑ پیٹ رہی تھی اس وقت پولس جائے واردات پر موجود تھی، پولس کی موجودگی میں بری طرح زخمی قاسم کو بھیڑ نے گھسیٹا اور بے رحمی سے مارا، لیکن پولس تماشا دیکھتی رہی، یہ بات سوشل میڈیا پر وائرل ایک تصویر کے ذریعے سامنے آئی ہے، معاملہ سامنے آنے کے بعد یوپی پولس نے معافی بھی مانگی ہے، ساتھ ہی واقعہ کے وقت موقع پر موجود 3 پولس اہلکاروں کو معطل کر کر دیا ہے۔قاسم قتل معاملہ: گائے کاٹنے کی افواہ نے ایک مسلمان کی پھر جان لے لی
یوپی پولس نے دعویٰ کیا ہے کہ جو تصویر سامنے آئی ہے، وہ جائے حادثہ پر پولس کے فوراً پہنچنے کے بعد کی ہے، پولس کا کہنا ہے کہ ایمبولینس نہیں ملنے کی وجہ سے نوجوان کو فوری طور پر ہسپتال لے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی، تاہم موقع پر موجود پولس اہلکاروں کو انسانی طریقے سے کام کرنا چاہیے تھا۔یہ بھی پڑھیں: یو پی: گئو کشی کی افواہ پر مسلم نوجوان کا پیٹ پیٹ کر قتلغور طلب ہے کہ 19 جون کو پلكھوا کے بچھیڑا خورد گاؤں میں ہجوم نے گئو کشی کے شک میں قاسم نام کے شخص اور ان کے ساتھی کی بری طرح پٹائی کر دی تھی، بری طرح زخمی دونوں لوگوں کو اسپتال میں داخل کیا گیا تھا، لیکن علاج کے دوران قاسم کی موت ہو گئی تھی۔واضح رہے کی سڑک کنارے بجھیڑا گاؤں میں کسی شخص نے قاسم کو پالتوجانور خریدنے کے لئے بلایا تھا ، جہاں گئو کشی کی افواہ سے بھیڑ جمع ہوگئی اور بیمار قاسم کاقتل کردیا۔