بھگوا تنظیموں اور آن لائن پلیٹ فارموں کا یہی ہتھکنڈہ ہے کہ وہ ہندو عوام میں اس بات کو لیکر دہشت پھیلاتے ہیں کہ ہندوستان کا ہندو خطرے میں ہے!
2 مئی ،بدھ کے دن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے یونین ہال میں ہندوستان کے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کو مسلم یونیورسٹی طلبا یونین لائف ٹائم ممبرشپ سے سرفراز کرنے والی تھی۔ اس تقریب میں حامد انصاری کی ایک تقریر بھی رکھی گئی تھی جو مسلمانوں کے مسائل سے متعلق تھی۔ 2مئی سے پہلے علی گڑھ کے ممبر آف پارلیامنٹ ستیش گوتم نے مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ایک خط لکھ کر یہ دریافت کیا تھا کہ یونیورسٹی کی کسی عمارت میں محمد علی جناح کی تصویر لگی ہوئی ہے ؛ جناح جیسے وطن مخالف شخص کی تصویر کا ہندوستان کے کسی ادارے میں لگانا کتنا صحیح ہے؟
2 مئی کو جب حامد انصاری کی اعزازی تقریب کا وقت قریب آیا تو علی گڑھ شہر کی جانب سے کچھ بھگوا فکر کے نو عمر لڑکے بندوقوں اور تمنچوں کے ساتھ مسلم یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہو گئے اور حامد انصاری کی جان کو نقصان پہنچانے کے لئے فائرنگ کرنے لگے۔ یہ سب دیکھ کر یونیورسٹی کے طلبا انکے خلاف آ گئے اور وہاں موجود ضلع پولیس سے انکی گرفتاری کا مطالبہ کرنے لگے ، جب طلبا سول لائنز تھانے کی طرف کوچ رہے تھے تو پولیس نے لڑکوں پر بری طرح لاٹھی چارج کر دیا۔
اس کے بعد یونیورسٹی طلبہ دھرنے پر بیٹھ گئے اور ابھی تک بیٹھے ہیں۔ دھرنے کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ بھگوا فکر کے لوگوں نے ٹوئٹر پر اس ویڈیو کو اپلوڈ کیا اور دعویٰ کیا کہ مسلم یونیورسٹی علی گڑ میں ہندوستان مخالف نعرے لگے ہیں۔ بقول الٹ نیوز ، ایک ٹوئٹر ہینڈل @goonereol نے اپنے ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ علی گڑھ کے طلبا نے “بھارت سے لیں گے آزادی” کے نعرے لگا ئے ہیں یعنی طلبا چاہتے ہیں کہ انھیں بھارت سے الگ کر دیا جائے ! ٹوئٹر ہینڈل @goonereol ایک بھگوا ہینڈل ہے جو بھگوا پورٹل OpIndia کے لئے مضامین اور کالم لکھتا ہے۔ اس کاویڈیو ٹوئٹ:
الٹ نیوز نے اپنی تفتیش میں پایا کہ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کے اس ویڈیو کو غلط طریقے سے پیش کیا جا رہا ہے اور یہ بھگوا پروپیگنڈا کا حصّہ ہے۔ دراصل یونیورسٹی طلبا بی جے پی اور آر ایس ایس سے آزادی کی بات کر رہے تھے اور یہ آزادی وہ بھارت میں لے کر ہی مانگ رہے تھے ۔ ان کا نعرہ تھا “بھارت میں لیں گے آزادی”! اس نعرے کو الٹ نیوز کے اس تفتیشی ویڈیو میں صاف صاف سنا جا سکتا ہے: