دنیا کی معروف ترین عمارتوں میں شامل تاج محل ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔
انڈیا کی شمالی ریاست اترپردیش کے سنی وقف بورڈ نے عدالت میں جوابی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا ہے کہ تاج محل اللہ کی ملکیت ہے اور ان کے پاس اس کے وقف کیے جانے کی دستاویزات نہیں ہیں، تاہم یہ وقف شدہ عمارت ہے اس لیے اسے بورڈ کے حوالے کرنا چاہیے۔
سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مقدمہ بہت پرانا ہے اور اب اس سلسلے میں سپریم کورٹ میں سماعت جاری ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ایک ہفتے قبل اترپردیش سنی وقف بورڈ کو یہ بات ثابت کرنے کے لیے دستاویزات طلب کی تھیں کہ تاج محل کو ان کی تحویل میں ہونا چاہیے۔
ظفر احمد فاروقی کا کہنا ہے کہ ملک میں قبروں اور مساجد کو قانونی طور پر وقف کی املاک تصور کیا جاتا ہے اور اس طرح تاج محل بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
٭ ’تاج محل مغل لٹیروں کی نشانی ہے‘
٭ ایک شاہکار بے شمار سوالات
انھوں نے بتایا کہ بہت پہلے عرفان بیدار نام کے ایک شخص نے عدالت سے رجوع کیا تھا اور یہ معاملہ 90 کی دہائی میں عدالت میں آیا تھا پھر انڈیا کے محکمۂ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) نے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں سنہ 2011 میں اپیل کی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ‘تاج محل مقبرہ ہے اور وہاں شاہجہاں کا سالانہ عرس ہوتا ہے، وہاں جمعے کی نماز ہوتی ہے اور رمضان میں تراویح کی نماز ہوتی ہے ایسے میں وقف بورڈ کا اس پر حق ہونا چاہیے۔’