بچپن میں سورج کے نکلتے وقت گنگاندی میں نہانے کے دنوں میں بہت سے لوگوں کو دیکھتا تھا । روز نہانے آنے والے لوگ دھار کے بہاؤ اور صبح کی ٹھنڈک سے کمزور پڑتے تو اپنی اندرونی طاقت کو سہارا دینے کے لیے رام کا نام لینے لگتے تھے! کانپتا ہوا آدمی رام کا نام لیتے ہی ڈبکی لگا دیتا تھا، آج دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ کمزوروں کو ڈرانے اور جان سے مار دینے کے لیے” جے شری رام ” کا نام بلوایا جا رہا ہے ابھی تک گاۓ کے نام پر کمزور مسلمانوں کو ہجوم نے مارا، اور اب یہ ہجوم” جے شری رام” کا نام لیکر بے قصور اور کمزور مسلمانوں کو ستانے کا کام کررہی ہے اور پورے ہندوستان میں یہ فرقہ پرست لوگ ایک خاص طبقے کے اندر خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں اور اسی سیاسی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں, جس کے منتخب نمائندے لوک سبھا میں پارلیمنٹ کے ایک رکن کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ مسلم ہے اور وہ "جے شری رام” کے نام سے چڑھا رہے تھے، سڑک پر ہونے والے واقعہ کی پارلیمنٹ میں تعریف ہورہی تھی! دہلی میں پیدل جارہے محمد مومن کسی کی کار چھو گئ کار کے مالک نے قریب بلاکر پوچھا کہ سب ٹھیک ہے لیکن جیسے ہی اس نے کہا کہ خدا کا شکر ہے، اس نے اسے مارنا شروع کر دیا.” جے رام رام” بولنے کے لیے کہنے لگے! گالیاں دی! اپنی گاڑی واپس لاۓ اور مومن کو ٹکّر مار دی! راجستھان اور گڑگاؤں سے بھی "جے شری رام” بلوانے کو لیکر حادثہ ہو چکا ہے! آۓ دنRoad Rage کا حادثہ ہوتا رہتا ہے. یہ ایک بیماری ہے، اس بیماری سے متأثر لوگ گاڑی کے چھو جانے یا چھوٹی موٹی بحث ہونے پر کسی کو بھی مار دیتے، بھارت میں آۓ دن کہیں نہ کہیں سے یہ خبر آہی جاتی ہے کہ گاڑی میں ایک تصادم یا معمولی مسائل پر بحث ہوئی، اور لوگ بھیڑ بنکر ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑے! اب، اگر یہ فرقہ وارانہ غصہ سیاسی معاشرے کے سامراجی تعصب سے مل جاۓ تو اس کا نتیجہ اور بھی زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے. معاشرے میں جو غصہ پہلے سے ہی موجود ہے اب اسے ایک اور چنگاری مل گئ ہے. پہلے ” گائے”تھی اور اب” جے شری رام” مل گںٔے ہیں! جمشیدپور میں 24 سال کے شمس تبریز کو لوگوں نے چوری کے الزام میں پکڑا ! تبریز کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ اس نے چوری نہیں کی! لیکن آپ سوچیے اس سنک اور قانون کے نظام کے بارے میں! تبریز کو ستون میں باندھ کر سات گھنٹے تک مارتے رہے "جے شری رام” بلواتے رہے؟ جب تک کہ تبریز اس دار فانی سے کوچ نہیں کر گیا! قانون کی حکمرانی کے بعد بھی بھیڑ کی حکمرانی قائم ہے، اس بھیڑ کو مذہب، ذات اور رسم و رواج کے نام پر چھوٹ ملی ہے، کسی عورت کو ڈائن کہہ کر مار ڈالا تو کسی ذات سے ہٹ کر شادی کرنے والے جوڑوں کو مار ڈالا، اسی کڑی میں اب یہ بھی شامل ہو گیا ہے کہ جرم کرنے والا یا جھوٹ کی زد میں آجانے والے مسلمان کو "جے شری رام” کے نام پر قتل کر دیا جائے گا! ہم سیاسی اور ذہنی طور پر بیمار ہوچکے ہیں،جس طرح سے ہم ذیابیطس جیسی بیماری سے ایڈجسٹ ہو چکے ہیں اسی طرح اس سیاسی اور ذہنی بیماری سے بھی ایڈجسٹ ہو چکے ہیں، آخر کوئی کتنا لکھے اور کتنا بولے قاتلوں کو معلوم ہے کہ اسپیکرز ایک روز تو تھک ہی جائیں گے. ان کے پاس اس کی مذمت کی ایک ہی دلیل ہو گی. قاتلوں کے پاس ہتھیار بدل جاتے ہیں! پہلے گائے تھی اور اب "جے شری رام” کو مل گئے ہیں! جب غصّے کی یہ عام بیماری فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر لے تو پھر خبردار ہونے کا وقت ہے، پھر کوئی انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ چپیٹ میں نہ آجائے, یوپی کے غازی آباد کے کھیڑا میں ایک 50 سالہ” آر ایس ایس "کے رضاکار کا قتل ہو گیا ہے, انہوں نے پڑوسی کے لڑکے کو اتنا ہی کہا تھا کہ وہ اس کی بیٹی سے نہ ملا کرے، اس نے ان کے ساتھ مار پیٹ کر لی اور وہ بزرگ انتقال کر گئے, یہاں رام کا نام نہیں لیا گیا مگر یہاں تو غصّے کا شکار وہ ہوا جو رام کا نام لیتا ہوگا! بہت سے ایسے حادثات ہیں جو مذہب اور مذہب کے بغیر بھی کئ موقعوں پر لوگوں کی جان لے رہی ہے, پہلے کوئی بیماری جب سیاسی بیماری بن جاۓ تو وہ کسی بھی ٹیکے سے ختم نہیں ہوتی ہے, جمشید پور، گروگرام، دہلی اور راجستھان کا حادثہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ شہریت کی تصور کے ساتھ دھوکہ ہے, میں لکھ سکتا تھا کہ یہ رام کے ساتھ دھوکہ ہے مگر نہیں لکھ رہا کیونکہ رام کے نام پر کسی کو قتل کرنے یا مارنے والوں کو ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا! وہ رام کا نام لینگے کیونکہ تبھی تو سیاسی معاشرہ ان کا ساتھ دیگا اور اقتدار انہیں بچائے گا|