نئی دہلی: جمعیت کے صدر مولانا محمود مدنی کے حالیہ بیان کو مین اسٹریم میڈیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا ان کا اسلام کو قدیم ترینمذہب بتانا ،بھارت کی زمین پر مسلمانوں کے حق کا ذکر اس کا مودی،بھاگوت کے حق سے موازنہ وغیرہ،اس پر شام کو پرائم ٹائم میں ‘مرغے’ لڑاۓ گیے۔تبصرے بھی ہوۓ ،۔آج تک نے مولانا محمود مدنی کے بیان پر ایک تبصرہ کیا ہے۔یہ صحیح ہے یا غلط یہ تو قارئین فیصلہ کریں گے ۔اسے ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا.
2024 کے لوک سبھا انتخابات کے لیے سیاسی بساط بچھنے لگی ہے۔ ایک طرف، زمین پر سوشل انجینئرنگ کے ذریعے سماج کو یکسو کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، اور ،دوسری طرف اس طرح کے کئی ایشوز بھی اٹھائے جا رہے ہیں تاکہ ووٹرز کو پولرائز کیا جا سکے۔ ان مسائل میں سناتن دھرم، اسلام اور یکساں سول کوڈ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جنہیں بی جے پی-کانگریس وقتاً فوقتاً اٹھاتی رہتی ہیں، لیکن پچھلے کچھ دنوں میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور جمعیت کی بیان بازیوں نے ان کو اور زیادہ گرم کردیا ہے۔اس سے مانا جارہا ہے کہ 2024میں یہ ایشوز فیصلہ کن کردار ادا کریں گے
بھارت میں دھرم پر ہمیشہ سیاست ہوئ ہے لیکن سنگھ پرمکھ موہن بھاگوت کے حالیہ بیانوں نے تصویر کو بہت حد تک صاف کردیا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ بھارت میں رہنے والے سبھی ہندو ہیں اور جو مسلمان ہیں وہ بھی پہلے ہندو تھے۔پھر یوگی نے آج تک سے کہا کہ سناتن دھرم بھارت کی پہچان ہے ۔اس کی آتما ہے ،بھارت کا راشٹریہ دھرم ہے۔حال ہی میں باگیشور دھام کے دھریندرشاستری نے ہندوراشٹر کا ذکر کرنے کے ساتھ ہندوؤں کو ایک کرنے کی بات کی تھی۔
ان بیانوں کے ذریعہ ہندوؤں کو ایک پیغام دینے کی کوشش ہورہی تھی کہ جمعیتہ کے سربراہ نے اپنے بیان سے نئی سمت دینے کی کوشش کی اور لڑائی دھرم کے ارد گرد چھڑگئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک جتنا مودی،بھاگوت کا ہے اتناہی محمود کا ہے یا یہ کہنا کہ اسلام سب سے قدیم مذہب ہے اور آدم علیہ السلام ہندوستان کی سرزمین پر آۓ تھے،اس لیے یہ بتانا کہ اسلام باہر سے آیا سراسر غلط ہے ۔انہوں نے کامن سول کوڈ پر بھی وارننگ دے ڈالی،اس پر سب سے زیادہ بے چینی بھی ہے۔جمعیتہ نے جن ایشوز پر قراردادیں منظور کی ہیں ان سب کی نوعیت سیاسی ہے اور وہ بی جے پی کے ایجنڈے پر ہیں گویا ہندو بنام مسلم کے لیے اکھاڑہ تیار ہورہا ہے۔
محمود مدنی کے بیان کے فوری بعد یوپی کےوزیر دانش انصاری اور ڈپٹی سی ایم کیشو پرساد موریہ کا بیان آیا ۔انصاری نے کہا کہ بھارت میں تمام مذاہب اورذاتیں برابر ہیں،مودی سرکار سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہے
یہ بیان اس لیے آیا کہ کامن سول کوڈ کو لے کر زمین پر اقلیتوں میں جو ماحول ہے اسے بدلنا ہی بی جے پی کے لیے چیلنج ہے ،وہیں جمعیت اس کو اور مضبوط کرنا چاہتی ہے۔اگر سناتن دھرم اور ہندوراشٹر کے ذریعہ ہندو ووٹوں کی صف بندی چاہتی ہے تو وہ یو سی سی معاملہ کو گرم کرکے مسلمانوں کی صف بندی کا راستہ اپنا سکتی ہے، کیونکہ اس ملک میں دھرم ہمیشہ ہر ایشو پر بھاری رہا ہے اگر راشٹرواد کا تڑکا لگا جاۓ تو پھر سونے پر سہاگہ ۔
جمعیتہ کا سنگ بنیاد سوسال قبل رکھا گیا تھا ،وقت گزرتے اس مذہبی تنظیم کی دلچسپی سیاست میں بڑھتی گئی۔اس کے بعد بھارت کی سیاست میں دخل اندازی بھی بڑھتی گئی،جمعیتہ نے اپنے سب سے بڑے پلیٹ فارم (مجلس عاملہ)سے اپنا رخ واضح کردیا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 2024میں کون سے ایشو حاوی رہیں گے۔یہ وہی ہیں جن پر بی جے پی نے سب سے زیادہ کھیلا ہے اور اپوزیشن نے اسے گھیرا ہے۔کہنے کو امرت ورش کی بات ہورہی ہے اور 2047تک ترقی یافتہ ملک بنادینا ہے مگر جن ایشوز پر سیاست شروع ہوگئی ہے وہ2024کے انتخابی ایجنڈے کو پوری طرح بدل سکتے ہیں۔کیونکہ جمعیت نے جن ایشوز و اٹھا یا ہے وہ بی جے پی کو سوٹ کرتے ہیں۔گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام،سناتن دھرم ،یکساں سول کوڈ کے ارد گرد انتخابی اکھاڑہ تیار ہورہا ہے۔سنگھ،بی جے پی اور جمعیتہ کی بیان بازی نے الگ سیاسی بساط بچھانے کا کام کردیا ہے