نئی دہلی: دہلی کی عدالت کے جج جنہوں نے چھ دن پہلے جے این یو کے طالبعلم شرجیل امام اور 10 دیگر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس ہوئے 2019 کے تشدد کے سلسلے میں الزامات سے بری کر دیا تھا، اب انہوں نےاس واقعے سے متعلق دیگر معاملات کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا ہے,انڈین ایکسپریس، نے اپنی رپورٹ میں یہ جانکاری دی ہے
گزشتہ4 فروری کو ساکیت ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے شرجیل امام،آصف اقبال تنہا ، صفورہ زرگر اور آٹھ دیگر کو الزامات سےبری کر دیا تھا۔ جج نے پایا تھا کہ پولیس نے ‘حقیقی مجرموں’ کو نہیں پکڑا اور ان ملزمین کو ‘قربانی کا بکرا‘ بنانے میں کامیاب رہی جمعہ کو دہلی پولیس نے جج ورما کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ پولیس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جذبات کی رو میں بہہ کر استغاثہ اور تفتیشی ایجنسی کے خلاف سنگین منفی ریمارکس دیے ہیں
جمعہ کی صبح اپنے کورٹ روم میں 15 دسمبر کے کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی ایڈیشنل سیشن جج ورما نے ملزمین کے وکیلوں سے کہا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بناء پر اس معاملے سے خود کو الگ کر رہے ہیں۔ منتقلی کی درخواست کے ساتھ اب یہ معاملہ ساکیت ڈسٹرکٹ کورٹ کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بھیجا گیا ہے،اب اس کیس کی اگلی سماعت 13فروری کو ہوگی