نبی اکرم شفیع اعظم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح میانہ قد تھا نہ بہت زیادہ لانبے تھے اور نہ کوتاہ، پیشانی کشادہ، سینہ فراخ، مونڈھوں کے درمیان قدرے فاصلہ تھا، ہڈیاں بڑی اور مضبوط، ہتھیلیاں اور تلوے کشادہ تھے، جسم گورا انتہائی خوبصورت اور گٹھا ہوا تھا، نیز حُسنِ صوت کے بھی مالک تھے،
آواز میں ایسا سوز وترنم تھا جو دل میں اترتا محسوس ہوتا ، زلف اپنے نانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح لانبی رکھتے تھے جو عمامہ سے نکل کر شانوں تک پھیل جایا کرتیں تھیں، داماد نبی حیدر کرار حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حَسنؓ سر سے سینے تک اور حُسینؓ باقی جسم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے۔
یہ حلیہ نواسہ رسول اکرم، بہشتی نوجوانوں کے سردار، لخت جگر بتولؓ، نور نظر حیدرؓ کرار برادر حسنؓ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کاہے، جب وہ پیدا ہوئےتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے نواسہ کو گود میں لیا، دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنا لعاب مبارک لخت جگر کے منہ میں داخل فرمایا، دعائیں دیں اور ’’حسین ‘‘نام رکھا، پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کیا گیا اور سر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کردی گئی۔
محبوب کبریا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے لہذا یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ دوران خطبہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما اپنے ننھے ننھے قدموں سے دوڑتے ہوئے آگئے تو آپ فرط محبت میں محراب سے اتر آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو ننھے سے حضرت حسینؓ پیٹھ پر سوار ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خاطر سجدہ طویل فرمادیا، میرے آقا نواسہ کو گود میں اٹھاتے، سینہ سے لگاتے، کاندھے پر بیٹھاتے اور رخساروں پر بوسہ دیتے۔
نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و مناقب میں بہت سی احادیث موجود ہیں جن کے بیان کا یہاں موقع نہیں ہے چونکہ در اصل اس مضمون میں تو عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن و احادیث ، حسب و نسب اور مقام و مرتبہ میں فضائل و مناقب کے باوجود بھی حق پر جم جانا اور حق کے لئے اپنوں کی قربانیاں دینا اور خود بھی قربان ہونا، یہ سب تعلیم تھی پوری امت کے لئے کہ خواہ تم علامہ بن جاؤ، مولانا مفتی کی سند حاصل کرلو، بہترین حافظ و قاری بن کر کتنا ہی اچھا قرآن پڑھو،
وکیل، جج، ماسٹر پروفیسر، انجینئیر ڈاکٹر یا ماسٹریٹ کی ڈگریاں حاصل کرلو لیکن جب وقت کا یزید تمہیں گھیرلے، ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جائیں، خون کے دریا بہائے جائیں، خلاف شرع عمل کرنے لئے کہا جائے اور نہ حق بات پر تمہیں مجبور کیا جائے تو تم بھی نواسہ رسولؑ، لخت جگر فاطمۃ الزہراؓ، نور نظر علی المرتضیٰ کی طرح ڈٹ جانا پھر ظلم کے آتش فشاں کو اپنے خون سے بجھانا، استبداد کے سمندر کو اپنوں اور اپنی خود کی نعشوں سے پاٹنا لیکن خبردار پیچھے مت ہٹنا، پشت مت دکھانا، اپنے موقف سے سر مو سرتابی مت کرنا
اے قوم! وہی پھر ہے تباہی کا زمانہ
اسلام ہے پھر تیر حوادث کا نشانہ
مٹتے ہوئے اسلام کا پھر نام جلی ہو
لازم ہے کہ ہر فرد حسین ابن علی ہو
کربلا کی سرخ مٹی کو خون سے رنگین کرنے والے، حق کے لئے قربانی دیکر میدان کربلا کو یاد گار بنانے والے، رہتی دنیا تک اسلام کے نام کو بلند کرنے والے نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے 72 جانثار قربان ہوئے جن میں لخت جگر، نور نظر صاحبزادے بھی تھے، مرحوم بھائی حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی نشانی برادر زادے بھی تھے، بھائی بند بھی تھے، رشتہ دار، جان نثار، فداکار، فرمانبردار احباب بھی تھے لیکن سب قربان ہوگئے اور پوری امت کو یہ درس دے گئے کہ
قتل حسین اصل میں مرگ یزید تھا
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کہ بعد
ایک جگہ البدایہ و النہایہ کے حوالہ سے ایک دل سوز واقعہ لکھا ہے جس کو میں اپنے انداز سے اس طرح سپرد قرطاس کرنا چاہتا ہوں۔
جب سبھی بہشتی نوجوانوں کے سردار شہید کربلا حضرت حسین کے اپنے سبھی جانثار، فداکار، فرمانبردار قربان ہوگئے اور آخر میں خود مقابلے کے لئے تشریف لائے تو یزیدی لشکر پر اس طرح حملہ آور ہوئے کہ دشمن کے دانت کھٹے کردئے، لڑتے، قتل کرتے، لاشوں کے پشتے بچھاتے، مدمقابل پر اپنی دھاک بیٹھاتے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر نکل جاتے، آخر ایک مرتبہ بھوکے، پیاسے، تھکے ہارے، خون میں لت پت، پڑاؤ میں واپس تشریف لائے اور خیمے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے،اہل بیت کے چشم و چراغ تھکن سے چور تھے اور ابھی سانسیں درست بھی نہ ہوئی تھیں کہ ایک چھوٹا سا معصوم بچہ دنیا و مافیہا سے بے خبر، کھیلتا کودتا آپؓ کے پاس آگیا، آپ نے اس کو سینہ سے لگایا گود میں بیٹھایا اور پیار کرنے لگے،
بچہ کو بوسہ دیتے جاتے تھے اور ساتھ ہی ساتھ اہل بیت کو وصیت کرتے جاتے تھے الوداعی کلمات زبان پر جاری تھے کہ اچانک ایک سنسناتا ہوا تیر آیا اور معصوم بچے کے نازک جسم میں پیوست ہوگیا، بچہ نے جام شہادت نوش کیا اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا دل دھک سے رہ گیا، کلیجہ منہ کو آگیا، سیدنا حسینؓ نے خون ہاتھوں میں اٹھایا اور آسمان کی جانب اچھالا اور فرمایا اے سب سے بڑی طاقت والے! اگر آپ نے ہم سے مدد کو روک لیا تو آپ ہماری اس قربانی کو خیر کا سبب بنا دیجئے اور ظالموں سے ہمارا انتقام لے لیجئے۔
یہ شکایت کرکے سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے ہمیں تعلیم دی کہ شکایت بھی کرو تو رب ذوالجلال کے دربار میں وہی تو پالنہار ہے وہی تو قہار و جبار ہے، اس کا لشکر سب لشکروں سے بڑا اور طاقتور ہے اس کی لاٹھی بے آواز ہے، وہ مارتا ہے تو بچانے والا کوئی نہیں، وہ رلاتا ہے تو ہنسانے والا کوئی نہیں اور جب وہ انتقام لیتا ہے تو کوئی بچا نہیں سکتا ہے۔
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس طرح کے مظاہرے کرنا، موت کو دعوت دینا ہے، یہ غلط ہے، حکومت کے پاس فورس ہے، بندوقیں ہیں، طاقت ہے، حکومت ان احتجاجات کو کچل کر رکھدے گی، حکومت کے پاس اکثریت ہے، حکومت نہیں جھکے گی اور حکومت اس بل کو واپس نہیں لے گی تو ان لوگوں کو چائے کہ وہ اپنا یقین رب ذوالجلال پر پختہ رکھیں، اور ایمان وایقان کا ثبوت اسی طرح پیش کریں جس طرح حضرت حسین اور ان کے بہتر جانثاروں نے کیا تھا،
حسین نے ہمیں سکھایا تھا اور تعلیم دی تھی کہ اصل اپنا موقف اور اس پر استقامت و ثابت قدمی ہے، انہوں نے جانیں تو دی لیکن باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا، انہوں نے اپنے عزیزوں کی قربانیاں تو دیں لیکن اپنےاصولوں سے پیچھے نہیں ہٹے، انہوں نے سرتو کٹایا لیکن باطل کے سامنے سر نگو نہیں ہوئے اور جان دے کر کہدیا
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا
ایک مرتبہ تو جب حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو پیاس کی شدت نے پریشان کیا تو آپ جوش میں دشمن کو چیرتے پھاڑتے ، عدو پر اپنی شمشیر کی برق گراتے دریائے فراط کی جانب بڑھنے لگے ، آخر ایسی جگہ تک پہنچ گئے کہ کسی نہ کسی طرح کچھ پانی میسر آگیا، پیاسے حسین نے پانی چلو میں اٹھایا اور منہ کی جانب لے جانے لگے لیکن اچانک ایک تیر حلق میں آلگا اور پانی میں خون جاگرا تو پیاس کی شدت اور زخم کے درد میں حضرت حسین نے وہ پانی آسمان کی جانب اچھالا اور کہا کہ اے رب ان سب کو گھیر لے اور ایک ایک کرکےقتل کر، کسی کو زندہ نہ چھوڑ ۔
جو خون حسین نے دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے ظلم کو مٹانے کے واسطے
میں نم آنکھوں اور کپکپاتی انگلیوں سے لکھ کر آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہم حسین کی تعلیم کو بھول گئے؟ کیا ہماری بھوک پیاس ان سے زیادہ سخت ہے؟ کیا ہمارے بچے بھائی بہن اور دوست واحباب حسینی فداکاروں اور جانثاروں سے زیادہ پیارے ہیں؟ کیا ہماری جان اور زندگی ان سے زیادہ خوبصورت اور افضل ہے؟اگر نہیں تو پھر کہدیجئے
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشان ہمارا
چاہت محمد قاسمی