۳۱؍جولائی ۱۹۸۰ء کو رفیع صاحب داغِ مفارقت دے گئے۔تب سے اس روز ساری دُنیا میں محمد رفیع صاحب کے شیدائی ان کی یاد میں بڑی عقیدت سے فاتحہ خوانی کے علاوہ مختلف پروگراموں کا انعقاد کرکے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔ رفیع صاحب کے حالات زندگی اور انکے لافانی نغمات کے متعلق خوب لکھا گیالیکن آج بھی کوئی کچھ کہتا ہے یا لکھتا ہے تو ایک نئی بات سامنے آتی ہے۔ رفیع صاحب مرحوم کو بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب اُن کے محلّے میں ایک فقیر درد بھری آواز میں نعت و منقبت پڑھ کر بھیک مانگا کرتا تھا۔ رفیع صاحب کو اس فقیرکی آواز بہت پسند آتی تھی وہ غور سے اس کی آواز میں گیت دہراتے اور کبھی کبھی اس فقیر کے پیچھے نکل جاتے۔ محمد رفیع کے بڑے بھائی حمید ان کے گلوکاری کے شوق کو دیکھتے ہوئے چھوٹی بڑی محفلوں میں گانا گانے کے لئے ہمت افزائی کرتے۔
محمد رفیع کا گھرانہ خالص مذہبی تھا ان کے والد حاجی علی محمد گانوں کے سخت خلاف تھے لیکن محمد رفیع کے ذوق و دیوانگی کو دیکھتے ہوئے گانے کی اجازت دی او ر انہیں موسیقی کی تعلیم کیلئے فیروز نظامی اور استاد وحید خاں کے سپرد کردیا۔ محمد رفیع لاہور میں کسی ایک محفل میں درد بھرا گیت پیش کررہے تھے، اتفاق دیکھئے اپنے زمانے کے مشہور موسیقار شیام سندر اس محفل میں موجود تھے، وہ محمد رفیع کی آواز سے بیحد متاثر ہوئے۔ انہوں نے رفیع کے بھائی سے خواہش ظاہر کی کہ اس بچے کی آواز بڑی سحر انگیز ہے ہم اس آواز کو فلموں میں گانوں کیلئے پیش کرنا چاہتے ہیں ۔ یوں محمد رفیع نے ۱۸؍ سال کی عمر میں شیام سندر کی موسیقی میں پنجابی فلم گل بلوچ کیلئے پہلا گیت لاہور میں صدابند کروایا۔ اس فلم کا گیت زیادہ مقبول نہ ہوسکا ان دنوں اپنے زمانے کے مقبول اداکار ناصر کے مشورہ پر۱۹۴۴ء میں شہر بمبئی کا رخ کیا یہاں تھوڑی سے تگ و دو کے بعد فلمی دنیا میں داخل ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فلمی دنیا میں اپنے وقت کے معروف گلوگار کندن لال اور طلعت محمود کی آواز گونج رہی تھی۔ آنجہانی کے ایل سہگل نے ۱۹۳۸ء میں محمد رفیع کی آواز سے متاثر ہوکر دُعا دی تھی کہ تم ایک دن بہت بڑے گلوکار بنو گے۔
۱۹۴۴ء میں محمد رفیع نے بمبئی میں شیام سندر کی موسیقی میں پہلی مرتبہ ’گاؤں کی گوری ‘کے لئے گانا ریکارڈ کروایا۔ یہ بھی اتنا مقبول نہ ہوا جتنا ہونا چاہئے تھا۔ ان دنوں محمد رفیع کی ملاقات شوکت حسن رضوی سے ہوئی جو (فلم )جگنو بنا رہے تھے۔ اس فلم کیلئے محمد رفیع نے ’’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے ‘‘ گایا ، ان کے ساتھ اپنے وقت کی ملکہ ترنم نور جہاں نے ڈُویٹ گایا جو اتنا مقبول عام ہو ا کہ محمد رفیع کی شہرت راتوں رات ہوگئی ، یہاں سے ان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوا ۔
۱۹۴۸ء میں مہاتما گاندھی جی کا قتل ہوا۔ چند دنو ں بعد معروف نغمہ نگار راجندر کرشن نے اس سانحہ پر ایک گیت لکھا جس کو محمد رفیع نے اپنی مسحور کن انداز میں گایا:
سنو سنو اے دُنیا والو باپو کی یہ امر کہانی …. ایک دفعہ دہلی میں ایک پروگرام ہوا جس میں اس وقت کے وزیراعظم آنجہانی پنڈت نہرو بھی موجود تھے محمد رفیع نے جب یہ گانا پیش کیا تو وہ بے حد متاثر ہوئے اور بعد میں انہوں نے اپنی کوٹھی پر ایک خصوصی تقریب کا اہتما م کیا جس میں محمد رفیع سے پنڈت نہرو نے خواہش ظاہر کی کہ ’’ سنو سنو اے دُنیا والو باپو کی کی یہ امرکہانی ‘‘ دوبار ہ پیش کریں ۔
۱۹۴۸ء سے رفیع صاحب نے اپنی آواز کی جادو گری سے سبھی کو گرویدہ کرلیا تھا ، ہر ڈائریکٹر نے اپنی فلم کے گیت کیلئے محمد رفیع کی آواز کو لازمی قرار دیا چاہے وہ ایک گانا ہو یا ’ڈُویٹ‘ ہو جس فلم میں محمد رفیع کو کوئی بھی گیت ہوتا وہ فلم کی کامیابی کا ضامن ہوتا تھا۔ محمد رفیع نے اپنے کریئر میں ہزاروں گیت گائے ہیں، جن میں رومانی، جذباتی، سنجیدہ ، غمگین،یا شوخ ہر قسم کے نغمے شامل ہیں۔ انہوں نے بھجن بھی گائے، قوالیاں بھی گائیں، حب الوطنی کے گیتوں کو بھی صدابند کیا ، غزلیں بھی گائیں،انہیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ سب رفیع صاحب کی آواز کے لئے ہی لکھے گئےہوں ۔
وہ نغموں کوجس انداز میں گاتے کہ لگتا کہ جیسے لفظ تھرکنے لگے ہوں، جس شاعر کا گیت ہوتایا جس اداکار کا گیت ہوتا وہ اسی کے انداز میں گانا ریکارڈ کردیتے۔ ۱۹۵۰ء سے ۱۹۸۰ءتک محمد رفیع نے اپنی مسحور کن آواز کا جادو جگا کر فلم انڈسٹری پرراج کیا، بالخصوص موسیقار اعظم محمد نوشاد علی ، شکیل بدایونی کے گیتوں اور شہنشاہ جذبات مرحوم دلیپ کمار کی آواز بن کر دو دہوں تک راج کیا۔ اس جوڑی نے ہندوستان فلم انڈسٹری پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ محمدرفیع کے سحر انگیز و سُریلے گیتوں کی ایک طویل فہرست ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ کس گیت کو لیں اور کس گیت کو چھوڑدیں ۔ ان کا انتخاب کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اسلئے چھ دہے گزرجانے کے بعد آج بھی ہر ایک گیت بوڑھے، نوجوان کے ذہن و دل کو مسحور کردیتا ہے۔ بلاشبہ محمد رفیع کی آواز اللہ کی دین تھی، ان کی آواز میں وہ تڑپ ، کشش اور کمال تھا کہ وہ مشکل سے مشکل گیت کو بھی آسانی سے گانے کا ہنر رکھتے تھے۔ چاہے وہ ہندی ہو کہ اُردو ،فارسی ، بھوجپوری، انگریزی، تلگو، کنڑا ،بنگلہ اور مراٹھی وغیرہ ۔وہ بہت کم گو تھے اوربہت کم انٹرویوز دیا کرتے تھے ۔ ان کے شیدائی جب ان سے اتنی پیاری آواز کا راز دریافت کرتے تو رفیع صاحب کہتے ’’یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔ ‘‘
محمد رفیع نے جہاں لا تعدادشاندار ’سنگلز‘ گیت گائے وہیں پر انہوں نے شاندار ڈویٹ بھی گائے ہیں۔ خاص کر بُلبل ہند لتا منگیشکر ، آشا بھونسلے، شمشاد بیگم، ثمن کلیان پور، مبارک بیگم، وغیرہ کے ساتھ کئی مقبول عام گیت گائے۔ لتا منگیشکر کے ساتھ رفیع صاحب کے کئی ایسے لافانی گیت ہیں اُنھیں بھلایا نہیں جاسکتا: تیری دُنیا سے دور چلے ہوکے مجبور( زبک) ، دو ستاروں کا زمیں پر ہے ملن آج کی رات (کوہ نور) وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے ( پارس منی ) ، جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا (تاج محل) ، کوئی بتا دے دل ہے جہاں ( میں چُپ رہوں گی)، چاند جانے کہاں کھو گیا ( میں چُپ رہوں گی) ، یاد میں تیری جاگ جاگ کہ ہم رات بھر کروٹیں بدلتے رہے( میرے محبوب) ، یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں ہم کیا کرے( عزّت) تیرے حُسن کی کیا تعریف کروں کچھ کہتے ہوئے بھی ڈرتا ہوں( لیڈر)
ایسے بے شمار نغمات ہیں جن کو محمد رفیع صاحب اور لتا منگیشکر نے اپنی آواز دے کر مقبول بنادیا ہے ، آشا بھونسلے کے ساتھ بھی رفیع صاحب نے بے شمار گیت گائے ہیں اور وہ بھی سب کے سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں ، جن میں چند مشہور گیت یہ ہیں: سر پر ٹوپی لال لال ہاتھ میں ریشم کا رومال ( دل دے کہ دیکھو) زلف کی چھاؤں میں چہرہ کا اجالا لے کر تیری ویران راتوں کو سجایا ہم نے ( فلم: تم سا نہیں دیکھا) تمہیں پاکے ہم نے جہاں پا لیا ہے ( گہرا داغ ) اُڑے جب جب زلفیں تیری کنواروں کا دل مچلے( نیا دور) ساتھی ہاتھ بڑھانا ( نیا دور) وغیرہ ، سبھی کا ذکر ممکن نہیں ۔
رفیع صاحب کو اداکاروں کے چہرے، ان کی چال ڈھال، اور حرکات کی مناسبت سے اپنی آواز کو اُن کے انداز میں ڈھالنے کا فن بخوبی آتا تھا ۔ یہ خوبی آج تک کسی گلوکار کو نصیب نہ ہوسکی ،اور یہی بنیادی خوبی انہیں دوسروں گلوکاروں سے ممتاز کرتی ہیں۔