اللہ رب العزت نے انسانی روح کو اِس طرح پیدا فرمایا ہے کہ اس میں اچھائی اور بُرائی دونوں طرف مائل ہونے کی صلاحیت موجود ہے لیکن ساتھ ہی حضرتِ انسان کو یہ ملکہ بھی عطا فرمایا ہے کہ وہ اچھی اور بُری چیزوں کے درمیان تمیز کر لے، اسی لئے دونوں جہاں میں انسانوں کے لئے کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ہرشعبۂ زندگی اور ہر کام کے لئے اچھائی کا راستہ منتخب کریں اور اُس کے حصول کے لئے ہمہ وقت جد و جہد کریں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اچھائی کو انسان سب سے پہلے اپنی ذات میں نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ شریعت مطہرہ نے اسی اچھائی کو اپنانے کے لئے تزکیہ نفس کی ترغیب دی ہے اور اسے کامیابی کا معیار قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”بیشک اس نے فلاح پائی جس نے اپنے آپ کو پاک کر لیا۔‘‘(سورہ الشمس:۹)
تزکیہ کا معنی پاک کرنا، اصلاح کرنا اور بڑھنا ہے۔ علامہ ابن جریر طبری ؒ نے لکھا ہے کہ تزکیہ کا معنی پاک صاف ہونا ہے۔(تفسیر طبری) اس مفہوم کے اعتبار سے شریعت میں مطلوب تزکیہ نفس کا مطلب قلب کی صفائی اور روح کی پاکیزگی ہے۔ فطری طور پر انسانوں کے اندر یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ قلب و روح کی صفائی کو اطمینان و سکون حاصل کر نے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔اسی وجہ سے یہ دیکھاجاتا ہے کہ انسان ہمیشہ مختلف اعمال اور عبادات کے ذریعے اس فطری تقاضے کو مکمل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ یہاں بنیادی بات یہ ہے کہ قلب و روح کی صفائی کا وہی طریقہ کامیاب اور کار گر ہے جو اللہ رب العزت نے قرآن مجید اور رسول اللہ ﷺ کے ذریعے بندوں کو سکھایا ہے اور علمائے ربانی نے جس کی تبلیغ کی ہے؛ اِس کے بر خلاف جو راستے اپنائے جائیں گے وہ قلب کی کجی اور گمراہی کا سبب بنیں گے۔ سورہ شمس کی آیت ۹؍ (جس کا تذکرہ اوپر ہوا) کے دوسرے حصے میں اس طرح کی کج روی کو محرومی کا سبب بتلایا گیا ہے اور یہ بات کہی گئی ہے کہ نامراد ہوا وہ شخص جس نے اس (نفس) کو گناہوں میں دھنسایا۔
زیر بحث موضوع کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد تزکیہ نفس ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ چنانچہ سورہ آل عمران کی آیت ۱۶۴؍ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان کیا جب کہ ان ہی کی جنس سے ایک ایسے پیغمبر کو بھیجا کہ وہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور انہیں پاک کرتےہیں اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں۔‘‘
یہی وہ پہلو ہے جس کی وجہ سے فقہائے کرام نے تزکیہ ٔ نفس کو فرض قرار دیا ہے، فتویٰ شامی میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین وہ خوش نصیب لوگ تھے جن کا تزکیہ نفس خود نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ اس کے بعدتزکیہ نفس کا یہ سلسلہ صحابہ کرام ؓ کے ذریعے دنیا کے طول و عرض میں قائم ہوا اور تاریک دلوں کو ایسی روشنی ملی کہ دل سے دل منور ہوتے گئے۔ پھر علمائے ربانی اِس سلسلے کو زندہ رکھ کر قلب و روح کو صیقل کرتے رہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لوگ تزکیۂ نفس کے راستوں سے دور ہوتے گئے اور اندھیروں میں بھٹکنے لگے؛ حالانکہ روئے زمین پر موجود تمام انسانوں کی یہ بنیادی ضرورت ہے۔ اس لئے سکون و اطمینان اور روشنی کے متلاشی لوگوں کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ وہ اُن ستودہ صفات ہستیوں کو تلاش کریں جو انہیں قلب و روح کی پاکیزگی کا راستہ دکھا سکیں اور جب تک یہ تلاش مکمل نہ ہو قرآن کریم کی تلاوت کو اپنی زندگی کا جز لاینفک بنالیں؛کیونکہ کلام اللہ کی تلاوت بھی دل کے زنگ کو دور کرنے کا یقینی راستہ ہے۔
تزکیہ نفس کے حوالے سے ایک انتہائی غیر معقول بات ہمارے درمیان یہ پائی جاتی ہے کہ یہ عمل صرف اُن لوگوں لئے ہے جو بزرگ یعنی صوفی بننا چاہتے ہیں یا جو لوگ مقامِ احسان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ اِس خیال کے حامی ہیں اُن کو یہ سمجھنا چاہئے کہ تزکیۂ نفس ہر فرد کی ضرورت ہے اور ہر ایک کے لئے لازم ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ تزکیۂ نفس کے سبق میں بھی افراط و تفریط سے بچنا لازمی ہے۔یہ بات ہمارے ذہن میں رہے کہ تزکیۂ نفس کے لئے اسلام میں ایک منظم نظام موجود ہے تاکہ انسان کو مرحلہ وار روحانیت کے مطلوبہ مقام تک پہنچایا جاسکے اور اس کو مثبت تبدیلی کے راستے پر ڈالا جاسکے، اس کے لئے انسان کو تعلیم و تربیت لینی ہوتی ہے اور ذہنی و جذباتی طور پر تیار ہونا ہوتا ہے؛اگر ایسا نہیں ہوا یا اس کے برخلاف ہوا تو مثبت تبدیلی کے بجائے منفی تبدیلی کا قوی امکان ہے۔
اس کا لب لباب یہ ہے کہ تزکیہ نفس کے لئے استقلال ضروری ہے۔اِس راستے میں صبر آزما مشکلات ہیں لیکن اُس کے لئے کامیابی بھی یقینی ہے جو برداشت کو آلہ کار بنا کر آگے بڑھنے کا جذبہ رکھتا ہو۔ تزکیۂ نفس کے عمل سے گزرتے ہوئے ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم شرعی احکامات کے پابند ہورہے ہیں یا نہیں اور ہمارے ظاہر و باطن پر اللہ رب العزت کے جلال و جمال کا عکس پڑ رہا ہے یا نہیں۔اگر اِس اعتبار سے ہم اپنے اندر مثبت تبدیلی پاتے ہیں توجمے رہنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے اور اگرمثبت تبدیلی نہیں پاتے ہیں تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ابھی ہمیںمستقل محنت کی ضرورت ہے۔