کویت میں شدید گرمی، یمن میں بھوک کا بحران
ہندوستان میں آج ۱۵؍ واں جبکہ عرب ممالک میں ۱۶؍و اں روزہ ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں موسم معتدل رہتا ہے اور روزہ کا دورانیہ کبھی ۱۴؍ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتا، اس لئے بر صغیر کے مسلمانوں کیلئے دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے روزے رکھنا قدرے آسان ہوتا ہے۔ امسال کویت کے شہری ۵۰؍ ڈگری سلیس میں روزہ رکھ رہے ہیں اور یمن میںبھوک کا بحران ہے۔ جانئے یہاں رمضان میں مسلمانوں کے شب و روز کیسے گزررہے ہیں
کویت میں درجہ حرارت ۵۰؍ ڈگری سلیس ہے
موسم گرما میں روزہ رکھنا بڑا صبر آزما ہوتا ہے، اور کویت جیسے ملک میں لوگ اس وقت پیاس کی شدت سے بے چین ہوجاتے ہیں جب سورج عین سر پر ہوتا ہے اور درجہ حرارت ۵۰؍ ڈگری سلیس پار کرجاتا ہے۔ ان حالات کے باوجود یہاں کے مسلمان نہ صرف ثابت قدمی سے روزہ رکھتے ہیں بلکہ ۱۲؍ سے زائد گھنٹے بغیر کچھ کھائے پئے رہتے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں روزہ رکھ کر روزمرہ کے کام انجام دینا ایک مشکل امر ہے لیکن کویت کے شہری پورا مہینہ روزہ رکھتے ہیں۔ رمضان ۲۰۱۶ء میں کویت کے شہر مطریبہ میں درجہ حرارت ریکارڈ۵۴؍ ڈگری سلیس تھا۔ اگرچہ مطریبہ رہائشی علاقہ نہیں ہے لیکن اس سے کویت کی آب وہوا کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ گرم موسم کے سبب اس ملک میں آگ لگنے کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ ایسے واقعات سے بچنے کیلئے لوگ گھر میں نہ ہوں، تب بھی اے سی آن رکھتے ہیں۔ یہاں کی وزارت برائے بجلی، پانی اور قابل تجدید توانائی کے ایک بیان کے مطابق زیادہ درجہ حرارت کے باعث اکثر بجلی کے جنریٹرز پر لوڈ بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے ملک کے متعدد مقامات پر کئی گھنٹوں کیلئے بجلی منقطع ہوجاتی ہے۔ ان حالات میں روزہ داروں کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہے۔ بجلی نہ ہونے اور گرمی کی وجہ سے پیاس کی شدت سے ان کا حلق سوکھ جاتا ہے۔ تاہم، امسال کویت کی حکومت نے شہریوں کو رمضان المبارک میں سورج نکل جانے کے بعد بلاضرورت گھر سے باہر نکلنے سے خبردار کیا ہے تاکہ روزے کی حالت میں شدید گرمی سے دوچار ہونے سے متعلق صحت کی پیچیدگیوں سے بچا جا سکے۔ موسم گرما میں آنے والے رمضان المبارک میں نجی شعبے کی کمپنیوں کے ملازمین کے دفتری اوقات میں تخفیف بھی کی گئی ہے۔
یمن میں بھوک کا بحران
رمضان المبارک میں لوگ ۱۲؍ سے ۱۸؍ گھنٹے تک بھوکے پیاسے رہتے ہیں لیکن افطار کے وقت دستر خوان پر سجی نعمتوں کیلئے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں۔ تاہم، امسال ماہ مبارک میں یمن کے مسلمانوں کے دسترخوانوں پر افطار کے نام پر ایک سے دو چیز ہی ہیں۔گلوبل ہنگر انڈیکس۲۰۲۲ء کے مطابق بھوک اور غذائی قلت سے سب سے زیادہ متاثر ملک یمن ہے۔ یہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دستیاب خوراک بھی شہریوں کی بھوک مٹانے کیلئے کافی نہیں ہوتی۔ گزشتہ دنوں دی پینینسولا نے اس ضمن میں یمن کے بعض افراد سے بات چیت کی۔ اس دوران ۳۴؍ سالہ افراح عظام نے بتایا کہ ’’رمضان المبارک شروع ہے لیکن میرے پاس اپنے خاندان کو کھانا کھلانے کیلئے صرف تھوڑا سا آٹا اور ایک انڈا ہے۔ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ اس سے کتنے لوگوں کو پیٹ بھرے گا۔ یہ ہم سحری میں کھائیں گے یا افطار میں، کوئی اندازہ نہیں ہے۔‘‘ واضح رہے کہ یمن ایک جنگ زدہ ملک ہے اور خوراک کے شدید بحران سے دوچار ہے۔اس ملک کی آبادی ۳۰؍ ملین افراد پر مشتمل ہے جس میں سے ۱۷؍ ملین بھکمری کا شکار ہیں جبکہ ۲ء۳۴؍ ملین افراد کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔ ان حالات میں لوگ فاقہ کشی پر مجبور ہیں۔ رمضان المبارک میں جب دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمانوں کے دسترخوانوں پر انواع اقسام کے پکوان سجے ہوتے ہیں، یمن میں لوگ خالی پیٹ روزہ رکھنے پر مجبور ہیں۔ یمن کے ۱۰؍ میں سے ۶؍ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہاں کے شہری ماجد کردی کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے لئے یہ ماہ بھی دیگر مہینوںجیسا ہے۔ ہم سال کے ۱۲؍ مہینہ روزہ رکھ رہے ہیں۔ رمضان اور دیگر مہینوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قلت، غربت، غیر یقینی حالات کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم اگلے دن کی سحری یا افطار کرپائیں گے یا نہیں۔ ‘‘ ماجد کردی روزانہ پیدل لوگوں کے سامان کی نقل و حرکت کرتے ہیں جبکہ افراح اپنے گھر کا چولہا جلانے کیلئے دن بھر کاغذ، پلاسٹک اور ڈبے جمع کرتی ہیں۔