ہتک عزت کیس میں ۲؍ سال کی سزا کے فیصلے کو چیلنج کرنے کیلئے راہل گاندھی پیر کو خود سورت کے سیشن کورٹ میں پہنچےجہاں عدالت نے انہیں جزوی راحت دیتے ہوئے سزا پر روک لگادی مگر انہیں مجرم ٹھہرانے کے فیصلے پر فوری طور پر روک لگانے کے بجائے شکایت کنندہ (پرنیش مودی) کو نوٹس جاری کردیا اور اس پر ۱۳؍ اپریل کو شنوائی کرنے کافیصلہ کیا۔ پرنیش مودی کو ۱۰؍ اپریل تک راہل گاندھی کی اپیل پر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
اپیل کے فیصل ہونے تک سزا ملتوی
سیشن کورٹ میں راہل گاندھی نےسیشن کورٹ میں پیر کو جو اپیل داخل کی اس میں ذیلی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے ساتھ ہی ساتھ اپیل پر فیصلہ آنے تک مجرم قراردینے کے فیصلے اور اس کی بنیاد پر سنائی گئی سزا پر روک لگانے کی مانگ کی تھی تاہم عدالت نے صرف سزا پر اسٹے عائد کیا ہے۔ راہل گاندھی کو ۱۵؍ ہزار روپے کے ذاتی مچلکہ پر سیشن کورٹ نے ان کی اپیل کے فیصل ہونے تک ضمانت دے دی ہے۔ باالفاظ دیگر ان کی اپیل پر جب تک شنوائی ہوتی ہے تب تک انہیں گرفتار نہیں کیا جائےگا۔
رکنیت کی بحالی کیلئےاگلی شنوائی اہم
راہل گاندھی کی سزا پر سیشن کورٹ کی روک ان کیلئے راحت تو ہے مگر اس کی بنیاد پر لوک سبھا کی ان کی رکنیت بحال نہیں ہوسکے گی۔ معروف وکیل سنجے ہیگڑے نے سپریم کورٹ کے لیلی تھامس کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجرم ٹھہرانے کے فیصلے پر روک رکنیت کی بحالی کیلئے ناگزیر ہے۔ سینئر ایڈوکیٹ سدھارت لُتھرا اور دیگر نے بھی اس کی تائید کی۔ اس لحاظ سے اگلی سماعت اہمیت کی حامل ہوگی جس میں کورٹ پرنیش مودی کے جواب کی بنیاد پر راہل گاندھی کی اپیل پر غورکریگی۔ا گر سیشن کورٹ مجسٹریٹ کورٹ کے فیصلے پر روک لگا دیتا ہے تو راہل گاندھی لوک سبھا سیکریٹریٹ میں اپنی رکنیت کی بحالی کی درخواست دے سکتےہیں۔
راہل کے وکیل نے کیا بتایا؟
راہل گاندھی کے وکیل کریت پان والا نے بتایا کہ عدالت نے فیصلے پر روک کی اپیل شنوائی کیلئے منظور کرلی ہے۔
اس کے ساتھ ہی راہل گاندھی نے مقدمے کی شنوائی کے دوران ذاتی طو رپر حاضر رہنے سے بھی استثنیٰ مانگا ہے جس پر کورٹ نے شنوائی کیلئے رضامندی ظاہر کی ہے۔ مقدمہ کی شنوائی کیلئے راہل گاندھی اپنی بہن پرینکا گاندھی کے ساتھ طے شدہ کمرشیل پرواز سے سورت پہنچے۔ اس دوران ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے پارٹی کارکنان کی بھیڑ کورٹ کے باہر موجود تھی۔ عدالت میں شنوائی اور ضمانت مل جانے کے بعد راہل گاندھی فاتحانہ انداز میں اپنے حامیوں کی موجودگی کا ہاتھ ہلاکر جواب دیتے ہوئے کورٹ سے باہر نکلے ۔ بعد میں انہوں نے ٹویٹ کرکے اپنی اس لڑائی کو ’متر کال کے خلاف جمہوریت بچانے کی لڑائی ‘ قراردیا۔ انہوں نے عدالت سے باہر نکلتے ہوئے ٹویٹر پر اپنی تصویر شیئر کی اور کہاکہ ’’ یہ ’مترکال‘ کے خلاف ، جمہوریت کو بچانے کی لڑائی ہے۔ اس جدوجہد میں ’سچ‘ میرا اسلحہ ہے، اور سچ ہی میرا آسرا ہے۔‘‘ ایک دوسرے ٹویٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ ’’میں ہندوستان کی آواز کیلئے لڑ رہا ہوں اور اس کیلئےمیں کوئی بھی قیمت چکانے کو تیار ہوں۔‘‘