ماہِ صیام برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ ہم کہاں تک اس کے تقاضے پورے کرتے اور اس کے فضائل سمیٹنے کے لئے اپنا دامن وسیع کرپاتے ہیں، اس کا انحصار ہم پر ہے۔ چاہیں تو اپنے آپ کو مکمل سیراب کرلیں یا تہی داماں رہ جائیں۔ رمضان المبارک کے دوسرے پہلو کا جائزہ لیں تو اس کی حیثیت چار ہفتوں کے ایک تربیتی کیمپ کی بھی ہے، جس میں ہم تقویٰ اختیار کرنے کی تربیت حاصل کر کے اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکتے ہیں۔ ویسے تو اطاعت ِ الٰہی ہر مسلمان پر فرض ہے، لیکن بحیثیت خواتین ہمیں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے اور دین ِ اسلام پر مکمل کار بند رہنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے نسلوں کی تربیت کی ذمّے داری سونپی ہے۔ یعنی ماں کی غلط سیکھ، بے راہ روی، بداخلاقی، دین سے دُوری صرف اُسی تک محدود نہیں رہتی بلکہ اس کی اولاداور پھر آنے والی نسلوں میں پروان چڑھتی ہے۔ ایسے میں رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ میسّر آنا کسی نعمت سے کم نہیں کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچّوں کو بھی تقویٰ، شکر گزاری اوراطاعت ِ الٰہی کاپابند بنا سکتے ہیں۔
ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ بچّے قول و نصیحت سے نہیں، عمل و فعل سے سیکھتے ہیں۔ وہی کرتے ہیں، جو ان کے بڑے کر رہے ہوں اور ماہِ رمضان میں تو ویسے بھی بچّوں کا زیادہ تر وقت ماؤں کے ساتھ ہی گزرتا ہے۔ پھر مائیں بھی عام دنوں کی نسبت عبادات، گھریلو کاموں اور کچن میں زیادہ متحرک نظر آتی ہیں، تو یہی در اصل وہ وقت ہے کہ جب بچّوں کو باتوں ہی باتوں میں ، لاڈ پیار سے دین کی سمجھ بوجھ دینی ہے، اخلاقیات کا سبق سکھاناہے، ربّ کی شکر گزاری کی تعلیم دینی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’کسی شخص کی تربیت کے لئے تین ہفتے کافی ہوتے ہیں۔ ‘‘ تو یہ تو پھر بھی چار ہفتوں کا سیشن ہے۔ اس تربیتی کیمپ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کردہ ہدایت نامے کے ذریعے مومن بندوں اور بندیوں کی مختلف پہلوؤں سے تربیت کا پورا انتظام موجود ہے۔ ہم رمضان المبارک کے رحمتوں بھرے مہینے میں کیسے خود کو اور اپنے بچّوں کو بہتر سے بہترین بناسکتے ہیں، آئیے، اس حوالے سے کچھ غور طلب باتوں کا جائزہ لیتے ہیں:
نیت کی اہمیت
اپنے دل و دماغ میں یہ عقیدہ پختہ کرلیں کہ اس ماہ ہمارا ہر کام صرف اور صرف رضائے الٰہی کیلئے ہوگا۔ پھر چاہے وہ سحری بنانا ہو، عبادات کرنا، صدقات وزکوٰۃ دینا یا افطاری بنانا۔ یاد رکھیں، اللہ تعالیٰ انسان کا عمل نہیں، اُس کی نیت دیکھتا اور اُسی پر پرکھتا ہے، تو جب ہم کوئی بھی کام اللہ کو راضی کرنے، اُس کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کریں گے تو پھر اجر و ثواب تو یقینی حاصل گا۔
نفس پر قابو
ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت، ہر لحظہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔ تو جیسے راہ سے پتّھر ہٹانے کی نیت کے بدلے نیکی ملتی ہے، ویسے ہی کسی کے لئے کوئی غلط، لغو بات منہ سے نکالنے کا گناہ بھی ہمارے کھاتے میں فوراً لکھا جاتا ہے۔ اس لئے غیر ضروری کاموں میں مصروف نہ رہیں۔ یاد رکھیں، روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں، اپنے نفس کو کنٹرول کرنے کا نام ہے۔ بڑے اور بچے، دونوں ہی فضول کاموں سے دور رہیں۔
بسیار خوری سے اجتناب
ماہرین کا خیال ہے کہ سال میں کم ازکم چالیس دن ایسے ضرور گزارنے چاہئیں، جن میں بارہ سے بیس گھنٹے کا فاقہ کیا جائےکہ یہ صحت کے لئے اکسیر ہے۔ ذرا سوچیں کہ ماہرین ِ صحت تو اب یہ تحقیق کر رہے ہیں، جبکہ ہمارے دین نے توساڑھے ۱۴؍ سو سال پہلے ہی یہ راز بتا دیا تھا۔ روزہ سے نہ صرف جسمانی نظام معتدل رہتا ہے بلکہ روحانی نظام بھی۔ اس لئے ہمیں رمضان میں مرغن غذاؤں، بھاری سحر و افطار کے بجائے سادہ اور منظّم غذا استعمال کرنی چاہئے تاکہ نظامِ ہضم درست رہے اور کچھ دن معدےکو بھی آرام ملے۔
پابندیٔ وقت کی اہمیت
وقت کی جتنی پابندی اس ماہ ہوتی ہے اور کسی مہینے نہیں ہوتی۔ سحر و افطار میں ایک، ایک منٹ کا حساب تمام اہل ِ خانہ کی پوروں پر ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دن کے تمام اُمور وقت پر بلکہ وقت سے پہلے ہی مکمل کرلئے جاتے ہیں۔ ذرا سوچیں، اگر پابندیِ وقت کی یہی مشق باقی گیارہ مہینے بھی جاری رکھی جائے، تو کتنا وقت بچ سکتا ہے۔ اگر عام دنوں میں بھی نمازِ فجر سے کاموں کا آغاز کردیا جائے، تو بہت عمدگی سے گھر کے تمام کام انجام دیئے جاسکتے ہیں۔
سونے کے اوقاتِ کار
تاخیر سے سونا اور دیر سے اُٹھنا آج ہمارا معمول بن چکا ہے جبکہ ماہِ رمضان ہمیں سونے، جاگنے کے معمولات منظّم کرنے کی تربیت دیتا ہے۔ جدید تحقیق سے بھی ثابت شدہ ہے کہ رات دس سے صبح چار کا وقت نیند کے لئے بہترین ہے۔ اس لئے سال بھر اس پر عمل کریں۔