موت کی سزا کا سب سے اچھا یعنی پھانسی پر چڑھائے جانے والے شخص کے لئے کم اذیتناک طریقہ کیا ہو؟ ۱۹۸۳ء میں سپریم کورٹ نے رائج طریقے یعنی گلے میں پھندا لگانے کو سب سے بہتر قرار دیا تھا مگر اب ۲۱؍ مارچ ۲۰۲۳ء کو ایک معاملے کی سماعت کے دوران سرکار سے ہی سوال کیا کہ وہ اس سوال پر کیا رائے رکھتی ہے یا عام لوگوں کی اس معاملے میں کیا رائے ہے؟ اس پر مذاکرہ کرے۔ سپریم کورٹ کی اس ہدایت کے پس منظر یا منشا کو سمجھنے کے لئے تین باتوں کا ذہن میں ہونا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ سزا کا مقصد مجرم کو اصلاح یا ایک بہتر زندگی گزارنے کا موقع عنایت کرنا ہے، اس کی زندگی کا خاتمہ کرنا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ سزا کے طریقے کا تعین کرنا قانون بنانے اور قانون کے مطابق حکومت چلانے والوں کا کام ہے۔ عدالت کا نہیں اور تیسری بات یہ کہ خود موت کی سزا ہمیشہ موضوع بحث رہی ہے۔
پہلے سوال یا بات پر غور و فکر کرتے ہوئے یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ موت کی سزا بے قصور کو بھی سنائی جاتی رہی ہے اور اس سے سزا یافتہ شخص کے اپنی اصلاح کرنے کا سارا امکان ہی ختم ہو جاتا ہے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ عادی مجرموں یا موذی ذہنی امراض میں مبتلا ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے جنہیں اصلاح کا موقع دنیا دوسروں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ اپنے ملک کی سالمیت کے خلاف سازش کرنے والوں سے ساز باز کرنے، معصوم بچوں بچیوں کا جنسی استحصال کرنے یا منشیات کا کاروبار کرنے یا بچوں کو اس کا عادی بنانے والوں کو کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔ دو، پانچ مہینہ یا سال کی سزا بھی ان کے لئے کافی نہیں ہے وہ جیلوں سے نکل کر بھی خطرناک جرائم کا ارتکاب کرسکتے ہیں۔ ایسے افراد کی تعداد بھی بہت ہے جو جیل میں رہتے ہوئے مسلسل ایسے جرائم کراتے رہتے ہیں جن کی تلافی نہیں کی جاسکتی۔ اس لئے اس حقیقت کے باوجود کہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں پھانسی کی سزا ختم ہوچکی ہے اس کے جواز کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ یہ یاددہانی ضروری ہے کہ موت کی سزا کا مستحق قرار دیئے جانے والے کے بارے میں ایماندارانہ تحقیق، بحث اور فیصلہ ضروری ہے۔ ایسے فیصلوں میں مذہبی تعصب، سیاسی انتقام یا بدعنوانی کی کسی بھی شکل کی معمولی سی آمیزش میں سزا کے مقصد کو نہ صرف فوت کر دے گی بلکہ سماج میں بے چینی اور بغاوت کا بھی ذریعہ بنے گی۔ سزا جتنی سخت ہو سزا سنانے اور اس سزا کا نفاذ کرنے والوں یا انتظامیہ کا ایماندار، صاحب ادراک اور انسان دوست ہونا اتنا ہی ضروری ہے۔ بے شک سزا کا مقصد اصلاح یا بہتر زندگی کا موقع عطا کرنا ہے اس کے باوجود جس طرح معالج کا مقصد مریض کے امراض کو دور کرنا اور اس کو ہر طرح ثابت و سالم رکھنا ہوتا ہے اس کے باوجود کئی معاملات میں کسی عضو کو کاٹ کر پھینکنا یا چیر پھاڑ کرنا ضروری ہوتا ہے کہ زہر یا بیماری تمام جسم میں سرایت نہ کرے اسی طرح ایسے مجرموں کے لئے موت ضروری ہے جن کے سدھرنے کا امکان نہیں ہے۔ ایسے ذہنی مریض سماج میں پھیلے ہوئے ہیں جو نہ صرف چھوٹے چھوٹے بچے بچیوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں بلکہ جنسی استحصال کرکے انہیں قتل بھی کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی جو سب کچھ سمجھتے بوجھتے زیادہ دولت کمانے کی ہوس میں منشیات فروشی کرتے یا انسانوں کے درمیان نفرت کا زہر گھول کر نئی نسلوں کو تباہ کرتے ہیں ایسی ہی سزا کے مستحق ہیں۔ یہ ذہنیت کم قاتل یا مضر نہیں کہ ہماری بات مانو، ہمارے تابع رہو اور زندہ رہو۔ مگر ہمارے تابع نہیں رہو گے یا آزادانہ سوچ کا مظاہرہ کرو گے تو مارے جاؤ گے۔ مشکل یہ ہے کہ ایسا کرنے والے کتنے ہی لوگ قوم کے محسنین اور مخلصین میں شمار کئے جاتے ہیں۔ یہ لوگ منشیات فروشوں سے کم مجرم نہیں جو نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ مہذب سماج میں گھر خاندان کے بڑوں اور سماج کے ذمہ داروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے چھوٹوں اور عام لوگوں کو یاددہانی کراتے رہیں کہ باعزت زندگی گزارنا بھی ہر شخص کا حق ہے اور باعزت زندگی گزارنے کا حق عطا کرنا بھی ہر شخص کا فرض ہے۔ کسی بھی حیلے سے اس حق یا فرض پر ڈاکہ ڈالنا جرم ہے۔ اس لئے یہ تسلیم کرنے کے باوجود کے سزا کا مقصد مجرم کی زندگی کا خاتمہ نہیں اس کو اصلاح کا موقع فراہم کرنا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ جس طرح بنجر اور پتھریلی زمینوں میں بیج ڈال کر فصل کی توقع نہیں کی جاسکتی، عادی مجرموں اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگوں کو آزاد چھوڑ کر معاشرے میں امن و سلامتی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
دوسری بات کے بارے میں بیشک سپریم کورٹ ۱۹۸۳ء میں فیصلہ صادر کر چکا ہے کہ پھانسی یعنی موت کی سزا کا سب سے اچھا طریقہ گلے میں پھندا ڈالنا ہے مگر اب زمانہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ انسانی وجود کے شرف کو بھی تسلیم کیا جا رہا ہے اور پھانسی کی سزا کے خلاف رائے عامہ بھی ہموار ہو رہی ہے مگر یہ بھی تسلیم کیا جا رہا ہے کہ موت کی سزا کے ایسے طریقے بھی تلاش کئے جاسکتے ہیں جن پر وحشیانہ ہونے کی پھبتی نہ کسی جاسکے۔ سپریم کورٹ نے موت کے طریقے پر خود کچھ کہنے کے بجائے حکومت سے یہ کہہ کر کہ وہ اس موضوع پر لوگوں کی رائے معلوم کرے یا بحث کرائے دراصل ایک طرف تو یہ یاددہانی کی ہے کہ سزا نافذ کرنا حکومت کا کام ہے اور عدلیہ حکومت کے اس کام میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی وہیں یہ یاددہانی بھی کی ہے کہ ہر انسان کو جہاں باعزت زندگی گزارنے کا حق ہے وہیں انسانی زندگی کے لئے خطرہ بننے والوںکے لئے ایسی ہی موت کی اجازت دی جاسکتی ہے جو غیر انسانی یا وحشیانہ نہ ہو۔
تیسری بات کا جواب پہلے ہی دیا جاچکا ہے کہ بیشک موت کی سزا ہمیشہ موضوع بحث رہی ہے اور دنیا کے بیشتر ملک اس قسم کی سزا سے تائب ہوچکے ہیں مگر بعض معاملات میں اس کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ البتہ ذہن میں اس بات کا ہونا ضروری ہے کہ سیاسی انتقام، مذہبی تعصب اور انتظامی بدعنوانی کے سبب ’’سزا دہشت گردی‘‘ کی شکل اختیار کرسکتی ہے جس کی اجازت کسی بھی صورت میں نہیں دی جاسکتی۔ ’’انکاؤنٹر‘‘ کی صورت میں جو ہوتا رہا ہے وہ ’’اسٹیٹ دہشت گردی‘‘ کی ہی ایک شکل ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ رخ سے اتنا ضرور ہوگا کہ انصاف اور سزا کے بارے میں لوگوں میں ذہنی بیداری پیدا ہوگی۔