ملائشیا میں پیدا ہونے والی می کیون چونگ جنھیں ڈیبوراہ بھی کہا جاتا تھا، 16 دن سے غائب تھیں۔ایسی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ ایک خاتون اپنی دوست کو قتل کرے، سر دھڑ سے الگ کرے، اسے سوٹ کیس میں ڈالے، دو ہفتوں تک لاش اپنے پاس رکھے اور پھر 200 میل دور ایک جنگل میں اس کی لاش پھینک آئے؟ ۔جیما مچل کے لیے یہ وجہ حرص تھی۔ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے چیف انسپیکٹر جم ایسٹ ووڈ نے کہا: ’مچل ایک بے رحم قاتل ہیں۔ وجہ قتل پیسہ تھا۔ اس مقدمے کے حقائق دل دہلا دینے والے ہیں۔‘
یہ ایک ایسی دوستی کی کہانی ہے جو مسیحی چرچ کے ایک اجتماع سے شروع ہوئی اور ایک خاتون کی موت تو دوسری کی عمر بھر قید پر ختم ہوئی۔
اور یہ ہوا تب جب گرمیوں کی ایک دوپہر سمندر کنارے واقع ایک شہر میں چھٹیاں بتانے کے لیے آئے ہوئے ایک خاندان نے اچانک ایک سر کٹی لاش دیکھی۔
ملائشیا میں پیدا ہونے والی می کیون چونگ جنھیں ڈیبوراہ بھی کہا جاتا تھا، 16 دن سے غائب تھیں۔
اب ان 67 سالہ خاتون کی سر بریدہ لاش جنوب مغربی انگلینڈ کی ڈیوون کاؤنٹی میں سالکومب کے ایک جنگل سے ملی۔ یہ جگہ شمال مغربی لندن میں ان کے گھر سے 200 میل دور ہے۔ چند دن بعد ان کا سر بھی قریب سے ہی دریافت ہوا۔
ایک برس بعد اولڈ بیلی میں چلنے والے قتل کے مقدمے میں ایسی تفصیلات سامنے آئیں جنھیں بھلانا بہت سے لوگوں کے لیے ناممکن ہو گا۔
وکیل ڈیانا ہیئر نے اس مقدمے میں استغاثہ کا کردار ادا کیا۔
اُنھوں نے بتایا: ’جیما مچل نے حملہ کیا، خاتون کو قتل کیا، اور پھر ان کی لاش ایک بڑے نیلے سوٹ کیس میں ڈال کر سالکومب لے گئیں جہاں اسے ٹھکانے لگانے کی کوشش کی۔‘
دو ہفتوں تک جاری رہنے والی سماعتوں میں مچل موجود تھیں اور چونگ کے خاندان نے ملائشیا سے ویڈیو لنک پر یہ کارروائی دیکھی۔
ڈیانا ہیئر نے جیوری کو بتایا کہ حالانکہ استغاثہ پر قتل کی وجہ ثابت کرنا لازم نہیں ’لیکن اس مقدمے میں وجہ واضح ہے، پیسہ۔‘ جیما مچل ایک صاحبِ ثروت خاتون ہیں جنھوں نے نجی تعلیم حاصل کی اور ان کی والدہ برطانوی دفترِ خارجہ میں کام کرتی تھیں۔ ان کی پیدائش آسٹریلیا میں ہوئی جہاں ان کی پراپرٹی بھی ہے۔ لندن میں ان کا خاندانی گھر اس علاقے میں ہے جہاں شاید ہی کبھی گھر 10 لاکھ پاؤنڈ سے کم میں فروخت ہوتے ہوں۔ چونگ کے بھیجے گئے ٹیکسٹ میسجز سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک مچل کے گھر کی مالیت 40 لاکھ پاؤنڈ تھی مگر اس گھر کو مرمت کی ضرورت تھی۔ڈیانا نے جیوری کو بتایا کہ کمرے سامان سے بھرے ہوئے تھے اور کچھ میں تو داخل ہونا بھی ناممکن تھا۔
’گھر میں بہت سے ڈبے اور سوٹ کیسز تھے، فریزرز کھانوں سے بھرے ہوئے تھے، پرانے گدے اور تعمیراتی سامان جابجا بکھرا پڑا تھا۔ کچن گندا تھا اور سڑتا ہوا کھانا چولہوں پر رکھا تھا، کاغذ ہر جگہ پڑے ہوئے تھے۔‘
’باتھ روم بھی گندا اور مرمت طلب تھا۔ یہ پوری جگہ سامان جمع کرنے کے کسی شوقین شخص کا گھر لگ رہی تھی۔ اس جگہ کی دوسری منزل پر تزئینِ نو جاری تھی اور دیواروں اور چھتوں کا کام ہونا باقی تھا۔‘
جیما مچل ایک صاحبِ ثروت خاتون ہیں جنھوں نے نجی تعلیم حاصل کی اور ان کی والدہ برطانوی دفترِ خارجہ میں کام کرتی تھیں۔
عدالت کو بتایا گیا کہ چونگ نے مچل کو گھر کی مرمت کے لیے دو لاکھ پاؤنڈز کی پیشکش کی تھی مگر پھر اُنھوں نے یہ پیشکش واپس لے لی۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ غائب ہو گئیں۔ دونوں خواتین بظاہر عقیدت مند مسیحی تھیں اور اگست 2020 کے آس پاس چرچ کے ذریعے ہی ملی تھیں۔
مچل ایک آن لائن ڈیٹنگ ویب سائٹ کرسچن کنیکشن استعمال کرتی تھیں جہاں چونگ بھی فعال تھیں اور تبلیغی پیغامات پوسٹ کیا کرتی تھیں۔ یہ بات معلوم نہیں کہ دونوں خواتین ایک دوسرے کی طرف کیسے راغب ہوئیں مگر چونگ ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار تھیں اور اوسٹیوپیتھی کی ڈگری رکھنے والی مچل نے اُنھیں طبی مشورے اور روحانی علاج کی باتیں بتائیں۔ می کیون چونگ اپنی فیاض فطرت کے لیے مشہور تھیں، اکثر بے گھر لوگوں سے دوستی کر لیتیں اور ضرورت مندوں کے کام آیا کرتیں۔
بظاہر دونوں کے درمیان معاملات بہت اچھے تھے مگر اس کے بعد چونگ کی لاش برآمد ہوئی اور پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لینا شروع کیا۔ پھر سارے عقدے کھلنے شروع ہو گئے۔ وہ جگہ جہاں سے ڈیبوراہ کی سر کٹی لاش برآمد ہوئی چیف انسپیکٹر جم ایسٹ ووڈ نے بتایا کہ ’بڑی تعداد میں ثبوت‘ مچل کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔
’سی سی ٹی وی نے مچل کو ڈیبوراہ کے غائب ہونے کے دن ان کے پتے پر جاتے ہوئے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے دیکھا۔ اس کے علاوہ اہم سی سی سی ٹی وی فوٹیج میں مچل کو ڈیوون جاتے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔‘
’ہم وہ نیلا، پہیوں والا سوٹ کیس برآمد کرنے میں کامیاب رہے جس میں ہمارے مطابق چونگ نے چیپلن روڈ پر ڈیبوراہ کے گھر سے ان کی لاش کو برونڈیسبری پارک میں اپنے گھر منتقل کیا اور وہاں سے اسے ڈیوون لے گئیں۔‘ ’اس کے علاوہ مچل نے ایک فوت شدہ پڑوسی کا فون نمبر بھی دوبارہ فعال کروایا اور اپنے ساتھ لے گئیں۔
جم ایسٹ ووڈ کہتے ہیں کہ ’ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ اُنھوں نے اپنا فون گھر چھوڑ دیا اور فوت شدہ شخص کا فون لے کر ڈیوون گئیں اور وہاں سے واپس آئیں۔‘ اس کے بعد مچل کے پتے پر تلاشی لینے والوں کو دوستی میں اس دھوکے کا علم ہوا۔ انسپیکٹر ایسٹ ووڈ کے مطابق ’ہمیں وصیتیں ملیں جنھیں ہم جعلی ثابت کرنے میں کامیاب رہے، ان پر ڈیبوراہ کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے دستخط کیے گئے تھے۔‘ ’اس کے علاوہ مچل 11 جون کو ڈیبوراہ کے گھر سے جو ذاتی اور مالیاتی دستاویزات لے گئی تھیں، وہ بھی ملیں۔‘
استغاثہ نے جیوری کو بتایا کہ مچل ’انھیں اپنے ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کا پورا ارادہ رکھتی تھیں۔‘ انسپیکٹر ایسٹ ووڈ نے ٹھنڈے دماغ سے کی گئی اس منصوبہ بندی کو ’خوفناک‘ قرار دیا۔ ٹرائل کی زیادہ تر توجہ اس نیلے سوٹ کیس پر تھی جسے مچل دارالحکومت کی سڑکوں پر گھسیٹتے ہوئے دیکھی جا سکتی تھیں۔
استغاثہ نے کہا کہ وہ سوٹ کیس چونگ کے گھر اُنھیں قتل کر کے لاش اس میں ڈالنے کے ارادے سے لے کر گئیں۔ جیوری کو بتایا گیا کہ جب مچل، چونگ کے گھر سے نکلیں تو سوٹ کیس بظاہر ’کہیں بھاری اور کھینچنے میں زیادہ مشکل‘ تھا۔
دو ہفتے بعد اُنھوں نے ایک جعلی نام سے فوت شدہ پڑوسی کا فون نمبر ایکٹیویٹ کیا، ایک گاڑی کرائے پر لی، سوٹ کیس اس میں ڈالا اور ڈیوون چلی گئیں۔ استغاثہ کے مطابق یہ سفر چونگ کی لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے کیا گیا تھا۔ انسپیکٹر ایسٹ ووڈ نے کہا کہ ’مچل نے کس نپے تلے انداز میں اس قتل کی منصوبہ بندی کی: فوت شدہ پڑوسی کا نمبر دوبارہ ایکٹیویٹ کیا تاکہ وہ مقتول کی باقیات کو ڈیوون لے جا سکیں، قتل کرنے کے بعد پہیوں والا سوٹ کیس ڈیبوراہ کے گھر اس ارادے سے لے کر گئیں کہ اسے وہاں سے لاش ہٹانے کے لیے استعمال کریں گی۔‘ اُنھوں نے کہا کہ ’یہ انتہائی شیطانی کام ہے۔‘
چونگ کی موت اور سالکومب کے سفر کے بیچ کے عرصے میں مچل مزید ٹھنڈے دماغ کا مظاہرہ کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر ملنے والے ایک شخص سے ڈیٹ پر لندن چڑیا گھر بھی گئیں۔مگر سب حساب کتاب اور منصوبہ بندی کے باوجود وہ پکڑی گئیں۔ اُنھوں نے ٹائر پنکچر ہونے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔
سڑک کنارے جو مکینک ان کی گاڑی کا ٹائر بدل رہا تھا، اس کا کہنا ہے کہ مچل کچھ عجیب سا برتاؤ کر رہی تھیں۔ اُنھوں نے گاڑی سے ’عجیب بو‘ کا بھی بتایا اور کہا کہ اُنھیں عجیب لگا کہ مچل نے خراب ٹائر ڈگی میں ڈالنے کے بجائے پچھلی سیٹ پر ہی رکھ دینے کے لیے کہا۔
مچل نے اپنے ٹرائل کے دوران ثبوت فراہم کرنے سے انکار کیا۔ چھ جولائی 2021 کو اپنی گرفتاری سے لے کر اب تک وہ مکمل طور پر خاموش رہی ہیں۔ جیوری کو بتایا گیا کہ کیسے مچل نے کنگز کالج لندن سے ہیومن سائنسز میں ڈگری حاصل کی جس میں تجرباتی اناٹومی کا ایک کورس بھی تھا۔
چنانچہ انھیں جسم کے ٹکڑے کرنا اور سر دھڑ سے الگ کرنا آتا تھا تاہم یہ واضح نہیں کہ اُنھوں نے ایسا کیوں کیا۔ وہ آسٹریلیا میں سات برس تک ایک اوسٹیوپیتھ کے طور پر بھی کام کر چکی ہیں جس کے بعد وہ سنہ 2015 میں برطانیہ لوٹ آئیں۔ یہاں وہ اپنی والدہ اور اپنی بہن کے ساتھ رہتی تھیں۔ مچل ہی وہ واحد شخص ہیں جنھیں یہ معلوم ہے کہ جون 2021 میں چونگ کے گھر پر اس رات کیا ہوا تھا۔ انسپیکٹر ایسٹ ووڈ کے مطابق ’ہم صرف اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مچل نے کیا کیا اور ان کا وسیع تر منصوبہ کیا تھا۔‘
’یہ تقریباً یقینی ہے کہ مچل نے اسی دوران ڈیبوراہ کا سر قلم کیا۔ جب لاش ملی تو وہ اتنی سڑ چکی تھی کہ مچل کو شک تھا کہ یہ کہیں مل ہی نہ جائے۔ ہم شاید کبھی نہیں جان پائیں گے کہ کیا اسی وجہ سے وہ لاش منتقل کرنے پر مجبور ہوئیں اور اُنھوں نے ڈیوون میں سالکومب کا انتخاب کیوں کیا۔‘
’مگر جو بات واضح ہے وہ یہ کہ مچل نے پیسوں کی پیشکش واپس لیے جانے پر اپنے فائدے کے لیے ایک کمزور خاتون پر حملے اور قتل کا فیصلہ کیا جو ایک انتہائی قابلِ نفرت جرم ہے۔‘
مچل کو اب 34 برس قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔