قلی کا پیشہ ان پیشوں میں سے ایک ہے جسے عام طور پر مرد اپناتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود منجو یادو یہ کام گذشتہ 10 سال سے کر رہی ہیں۔
منجو کی صبح پانچ بجے شروع ہوتی ہے۔ وہ ساڑھے پانچ بجے سٹیشن پہنچتی ہیں، پھر 9 بجے واپس گھر جاتی ہیں اور ایک گھنٹے میں غسل کر کے اور کھانا کھا کر 11 بجے تک پھر سٹیشن واپس آ جاتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں تمام ٹرینوں کے بارے میں جانتی ہوں۔ ممبئی سپر ایکسپریس کس وقت پہنچتی ہے، چنئی والی ٹرین کس سٹیشن پر آتی ہے۔ مجھے تمام گاڑیوں کا ٹائم ٹیبل یاد ہے۔ میں ان پڑھ ہوں لیکن میرا دماغ ان پڑھ نہیں ہے۔‘
15 سال پہلے منجو یادو کے شوہر کی موت ہو گئی تھی، جس کے بعد انھیں روزگار خود تلاش کرنا پڑا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’گاؤں میں جو عورتیں گھاس کاٹتی ہیں، بھینسیں چراتی ہیں، وہی محنت قلی کے کام میں بھی ہے۔‘
کام کی تلاش میں جب وہ پہلی بار ٹرین سٹیشن آئیں تو دیکھا کہ کوئی قلی ٹرالی کھینچ رہا تھا تو کسی کے کندھے پر دو بیگ تھے اور سر پر دو۔ وہ کہتی ہیں ’مجھے لگا یہ کام تو آسان ہے۔ یہ کام تو میں بھی کر لوں گی۔‘
پھر انھوں نے وہاں مرد قلیوں سے اس کام کے بارے میں دریافت کیا۔ وہ کہتی ہیں ’انھوں نے میری مدد کی۔ پھر میں قلی بن گئی۔‘
منجو یادو کا تعلق انڈیا کی ریاست راجستھان سے ہے۔ اس ریاست میں پانی کی کافی قلت ہے اور اسی لیے وہاں زراعت کا کام مشکل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ انڈیا کی ان ریاستوں میں سے ہے جہاں عورتوں کے خلاف جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ ان حالات میں عورتوں کے لیے گھر کے باہر کام کرنا عام طور پر ایک جدوجہد ہوتی ہے۔
وہ شوہر کی موت کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ان کی وفات کے بعد گاؤں میں پینے کا پانی نہیں تھا، گھر نہیں تھا۔ پانی ہوتا تو زمین میں فصل ہو جاتی۔ پھر میں نے سوچا کہ عورتیں جو برتن میں پانی بھر کر اٹھاتی ہیں وہی کام تو قلی کا ہے۔‘
لیکن جلد ہی انہیں احساس ہوا کہ قلی کا پیشہ اتنا آسان نہیں ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ایک مسافر کا 30 کلو وزنی سامان تھا۔ جب میں نے سامان اٹھانے کی کوشش کی تو اسے اٹھا نہ سکی اور گر گئی۔‘
مسافر نے ان سے دریافت کیا کہ ان کی بھرتی کیسے ہوئی۔ وہ کہتی ہیں ’میں نے جواب دیا کہ میں یہ کام مجبوری میں کر رہی ہوں۔ میری دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے اور اسی لیے میں یہ ہمت دکھا رہا ہوں۔‘
حالانکہ وہ اس سٹیشن پر اکیلی خاتون قلی ہیں، ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد قلی بھی ان کی حوصلہ افزائی اور مدد کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
منجو یادو قلیوں کی یونین کی صدر کی بھی رہ چکی ہیں۔ بلکہ کئی دفعہ تو مرد قلی بھی ان سے مدد مانگتے ہیں۔ ان کے ساتھی مرد قلی سنجے کہتے ہیں کہ ’افسر ان کی بات مانتے ہیں۔ کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو ہم انھی کو آگے لے جاتے ہیں۔‘
منجو یادو کے خاندان میں متعدد لوگ قلی کا کام کر چکے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے سسر یہ کام کرتے تھے، جس کے بعد ان کے شوہر نے یہ کام سنبھالا۔ لیکن شوہر کی موت کے بعد بچوں کی پرورش کے لیے انہیں بھی اسی پیشے میں آنا پڑا۔
وہ بتاتی ہیں کہ یہ مشکل پیشہ ضرور ہے لیکن کام کے بعد بچوں کا چہرا ان کے لیے راحت کا سبب ہوتا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ اس پیشے میں ‘تھکن تو بہت ہوتی ہے، پسینہ نکل جاتا ہے۔ سر پر وزن اٹھانا، سیڑھی پر چڑھنا، سیڑھی سے اترنا، ٹرالی کھینچنا، گاہک کا سامان گاڑی میں ڈالنا اور گاڑی سے اتارنا، یہ محنت کا کام ہے۔ لیکن دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو دیکھ کر میری تھکن دور ہو جاتی ہے۔‘
وہ خاتون کارکنان کے لیے پیغام دیتی ہیں ’میرا تو اتنا کہنا ہے کہ عورتیں ہمت دکھائیں اور عورتوں کا نام آگے بڑھائیں۔‘ ان کی اسی سوچ نے گذشتہ 10 برسوں میں انہیں متعدد اعزازات کا حقدار بنایا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میرے گھر میں ایوارڈ رکھنے کی جگہ نہیں، میرے پاس اتنے ایوارڈ ہیں۔‘