جے پور: اسدالدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) راجستھان اسمبلی انتخابات 2023 کے انتخابی میدان میں اترے گی۔ یہ اعلان پیر کے روز خود اسدالدین اویسی نے جے پور میں کیا۔ اویسی گزشتہ دنوں بھی جے پور کے سفر پر آئے تھے تب سے ہی یہ قیاس آرائی کی جارہی تھی کہ ان کی پارٹی راجستھان میں الیکشن لڑسکتی ہے۔
اسدالدین اویسی کے خفیہ طریقے سے کئی لوگوں سے ریاست میں پارٹی کی ذمہ داری کے لئے ملاقات بھی کی ہے۔ اویسی نے کہا کہ وہ راجستھان میں الیکشن لڑیں گے اور ان کی پارٹی راجستھان میں آئندہ ڈیڑھ ماہ میں پارٹی تنظیم کو لے کر اعلانات کردے گی کہ کسے کون سی ذمہ داری دی جا رہی ہے۔
اسدالدین اویسی نے کہا، ’میں خود پورے راجستھان کا دورہ کروں گا اور اس کے بعد ہماری پارٹی 2023 کے یہاں اسمبلی انتخابات میں مضبوطی سے الیکشن لڑے گی۔ مجھے یا میری پارٹی کا بی جے پی کی بی ٹیم کہا جانا غلط ہے، ایسے بہت سے مثال ہیں جہاں پر ہم الیکشن نہیں لڑ رہے تھے اور ایسی سیاسی پارٹی بہت بری طریقے سے الیکشن ہار گئیں، جو یہ کہتی ہیں کہ وہ وہمارے الیکشن لڑنے سے ہار گئے‘۔
مجلس اتحادالمسلمین کے سربراہ اور حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ آج اگر ہم ملک میں اقلیتوں کی آواز کو مضبوط کرنے کے لئے الیکشن لڑتے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے۔ یہ ہمارا آئینی اختیار اور حق ہے۔
اترپردیش اسمبلیا نتخابات سے قبل ریاست کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی میں ایک بار پھر زبانی جنگ تیز ہوگئی ہے۔
اترپردیش اسمبلی انتخابات سے پہلے ایک مرتبہ پھر سیاسی بیان بازی تیز ہوگئی ہے۔ پاکستان کے بانی محمد علی جناح کے بعد اترپردیش کی سیاست میں چندر گپت موریہ کو لے کر ہنگامہ شروع ہوگیا ہے۔ ریاست کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے مورخین پر الزام لگایا کہ انہوں نے چندر گپت موریہ کو عظیم نہیں بتایا بلکہ ان سے ہارنے والے سکندر کو عظیم بتا دیا۔ یوگی کے اس بیان کے بعد اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے یوگی آدتیہ ناتھ کے پلٹ وار کیا ہے۔ اویسی نے ہندتوا کو ایک فرضی تاریخ کی فیکٹری بتایا ہے۔ یوگی نے کہا کہ تاریخ کو کیسے توڑا مروڑا جاتا ہے، ہماری تاریخ چندر گپت موریہ کو عظیم نہیں مانتا، عظیم کس کو کہا؟ جو ان سے جنگ ہار گئے تھے۔ انہیں الیکزینڈر گریٹ کہا جاتا ہے۔ ملک کے ساتھ بڑا دھوکہ ہوا ہے ، پھر بھی مورخین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کیونکہ اگر سچ سامنے آتا ہے تو سماج ایک مرتبہ پھر اٹھ کھڑا ہوتا۔ ہندتوا ایک فرضی تاریخ کی فیکٹری ہے۔ چندر گپت اور الیکزینڈر تو کبھی لڑے ہی نہیں تھے۔ ان کے درمیان کوئی جنگ نہیں تھی۔ کسی کا یہ کہنا ہی بتاتا ہے کہ ہمیں اچھے ایجوکیشن سسٹم کی ضرورت کیوں ہے۔ اچھے اسکولوں کے فقدان میں بابا لوگ اپنے من سے کچھ بھی حقیقت بنا دیتے ہیں اور پروستے ہیں۔ بابا تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے اور اور یہ ان کے بیانوں میں دکھتا ہے۔