سوامی اگنویش سے کئی مرتبہ ملاقات ہوئی،بار ہاں مختلف ایشوز پر ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی، وہ ظلم کے خلاف ایک مضبوط آواز تھے،لیکن مسلمانوں کو سیکولر بنانے کی کوشش میں کئی مرتبہ کچھ ایسی باتیں کہہ جاتے تھے جن سے مسلمانوں کی تہذیب،شعائر اور ثقافت پر چوٹ پڑتی تھی،
ایسے کئی معاملوں میں ہم نے کھل کر ان کی تنقید کی، اور ان مسائل پر ان سے بحث تک کی، قربانی کا مسئلہ ہو یا رسالت کا مسئلہ،ہر مدعے پر ان سے تلخ گفتگو ہوئی،ایک مرتبہ تو لگا کہ وہ شاید ناراض ہوگئے اور اب آگے کبھی بات نہیں کریں گے،لیکن اگلے ہی پروگرام میں وہ گاڑی سے اتر کر خود میرے پاس آئے اور بڑی شفقت سے میرے سر پر ہاتھ رکھا. وہ پتھر کی مورتی پوجا کے شدید مخالف تھے.ایک خدا کو مانتے تھے،لیکن رسالت پر آکر اٹک جاتے تھے،
عوامی اقدار و احساسات کے انقلابی شاعر ڈاکٹر راحت اندوری
سول سوسائٹی کی میٹنگ ہو یا جنتر منتر پر احتجاج، وہ ہر جگہ پوری توانائی کے ساتھ شریک ہوتے تھے اور مضبوطی سے اپنی بات رکھتے تھے، ان کی اپنی کمیونٹی کے کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ کئی مرتبہ بہت تکلیف دہ رویہ برتا،جھارکھنڈ والے واقعہ کے بعد میں نے ان سے اس پر کچھ کہا تو انہوں نے کہا سادھو کا کام ہوتا ہے سچ بولنا میں نے وہی کیا. آج سوامی اگنویش کے جانے سے ایک بڑا خلاء پیدا ہوا ہے.جس کا احساس ناانصافی کے خلاف احتجاج کے دوران بار بار ہوتا رہے گا.
آغا خورشید خان