نڈیا کی ریاست احمد آباد کے سول ہسپتال کو ان الزامات کا سامنا ہے کہ یہاں مریضوں سے ان کے مذہب کی بنیاد پر تفریق برتی جا رہی ہے۔12 اپریل سے پہلے تک اس ہسپتال میں کورونا سے متاثرہ ہندو اور مسلمان مریضوں کو ایک ہی وارڈ میں رکھا جا رہا تھا تاہم 12 اپریل کے بعد مریضوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کرتے ہوئے علیحدہ علیحدہ وارڈز میں منتقل کیا جا چکا ہے۔
مثال کے طور پر احمد آباد ہسپتال کے وارڈ نمبر ’سی فور‘ میں صرف کورونا سے متاثرہ مسلمان مریضوں کو رکھا گیا ہے۔
اس وارڈ میں موجود ایک 19 سالہ مریض نے بی بی سی کو بتایا کہ 12 اپریل یا اس سے قبل ہسپتال آنے والے تمام مریضوں کو وارڈ نمبر ’اے فور‘ میں داخل کیا جا رہا تھا اس سے قطع نظر کہ کون سے مریض کا مذہب کیا ہے۔
جب بی بی سی نیوز گجراتی نے احمد آباد سول ہسپتال میں داخل ہونے والے ایک مریض سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ 12 اپریل کی شب وارڈ ’اے فور‘ میں موجود تمام مسلمان مریضوں کو وارڈ ’سی فور‘ میں منتقل ہونے کو کہا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ مسلمان مریضوں کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ نئے وارڈ سی فور میں صحت کی بہتر سہولیات میسر ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہندو مریضوں کو وارڈ اے فور سے منتقل نہیں کیا گیا اور انھیں وہیں رہنے کو کہا گیا تھا۔‘
ان تین ریاستوں میں نہیں ملے گی لاک ڈاؤن سے کوئی راحت
اس مریض نے بی بی سی کو بتایا کہ جب انھوں نے دیگر مریضوں کے ہمراہ انتظامیہ سے یہ پوچھا کہ انھیں وارڈ اے فور سے وارڈ سی فور میں کیوں منتقل کیا جا رہا ہے تو انتظامیہ کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا۔
فون پر نمائندہ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس مریض نے بتایا کہ بعد ازاں ہمیں بتایا گیا کہ الگ الگ وارڈز میں منتقلی مذہب کی بنیاد پر کی گئی ہے اور اب سی فور وارڈ میں ان کے ساتھ کوئی بھی ہندو مریض موجود نہیں۔
اسی طرح سی فور وارڈ میں موجود ایک اور مریض نے بی بی سی کو بتایا جب سے وہ اس وارڈ میں داخل ہوئے ہیں، انھوں نے تب سے یہاں کسی ہندو مریض کو نہیں دیکھا ہے۔ ’پورا سی فور وارڈ مسلمان مریضوں سے بھرا ہوا ہے۔‘
جب بی بی سی نے احمد آباد سول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جی ایچ رتہوڈ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کی مختلف وارڈز میں منتقلی ان کی صحت کی بنیاد اور ان کے علاج پر معمور ڈاکٹروں کے مشورے پر کی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سچ نہیں ہے کہ ایسا مذہب کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
تاہم اس سے قبل ڈاکٹر جی ایچ رتہوڈ نے انڈین اخبار ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ایک حکومتی نوٹیفیکیشن کی بنیاد پر مسلمان اور ہندوؤں کے لیے علیحدہ علیحدہ وارڈز بنائے گئے ہیں۔

اخبار کے مطابق ڈاکٹر جی ایچ رتہوڈ نے کہا تھا مذہب کی بنیاد پر الگ الگ رکھنے کا فیصلہ حکومت کا ہے۔
دانش قریشی ایک مسلمان کارکن (ایکٹیوسٹ) ہیں اور ان کا ایک دوست اسی سول ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دانش قریشی نے کہا کہ ہسپتال میں موجود چند ہندو مریضوں نے ہسپتال کے عملے سے شکایت کی تھی کہ وہ اپنے وارڈ میں مسلمان مریضوں کی موجودگی میں بہتر محسوس نہیں کر رہے ہیں۔
جب بی بی سی نے ڈاکٹر جی ایچ رتہوڈ سے اس دعوے کی بابت دریافت کیا تو انھوں نے تردید کی کہ عملے کو اس نوعیت کی کوئی شکایت کسی مریض سے موصول نہیں ہوئی ہے۔
گجرات کے صحت عامہ کے ادارے نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے میڈیا پر اس حوالے سے چلنے والی ’بے بنیاد اور گمراہ کُن‘ خبروں کی مذمت کی ہے۔
اپنی ٹویٹ میں صحت حکام کا کہنا ہے ’مریضوں کو ان کی حالت، علامات کی شدت، عمر اور ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے مشورے کی بنیاد پر مختلف وارڈز میں رکھا گیا ہے۔‘
یہ ٹویٹ آنے سے چند گھنٹے قبل بی بی سی نے وزیر صحت کشور کانانی سے بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ مریضوں کو کہاں رکھنا ہے اس کا انحصار ان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کی رائے پر ہے۔

’حکومت نے کوئی ایسا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا جس میں مذہب کی بنیاد پر مریضوں کو رکھنے کی بات کی گئی ہو۔‘
تاہم وزیر صحت کا کہنا تھا کہ اگر ڈاکٹر ایسا (مذہب کی بنیاد پر تفریق) کر رہے ہیں تو یہ ان (ڈاکٹروں) کی ریکوائرمنٹ (ضرورت) کے مطابق ہو گا۔
جب وزیر صحت سے پوچھا گیا کہ آیا ڈاکٹر مریضوں کو مذہب اور عقیدے کی بنیاد پر علیحدہ کر سکتے ہیں تو انھوں نے بی بی سی کے نمائندے سے پوچھا کہ کیا آپ ان لوگوں کے ساتھ ہیں جو کورونا کےخلاف لڑ رہے ہیں یا نہیں؟
انھوں نے نمائندے کو مزید کہا کہ ’آپ کو ایسے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرنی چاہیے اور جو لوگ (ڈاکٹر) کام کر رہے ہیں انھیں اپنا کام کرنے دینا چاہیے۔‘
حکومت گجرات کی جانب سے احمد آباد میں قائم سول ہسپتال کو کورونا کے علاج کا سب سے بڑا ہسپتال قرار دیا گیا۔ حال ہی میں تعمیر ہونے والے 1200 بستروں پر مشتمل اس ہسپتال کو مکمل طور پر ریاستی حکومت کی جانب سے کورونا کے مریضوں کے علاج کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ احمد آباد ہسپتال میں لائے گئے زیادہ تر مریضوں کا تعلق مسلمان کمیونٹی سے ہے۔
مسلمان رہنماؤں کا کیا کہنا ہے؟
جب بی بی سی نے مسلمان برادری کے رہنماؤں سے رابطہ کیا تو انھوں نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا۔

شاہ پور سے تعلق رکھنے والے دانش قریشی نے بتایا کہ وہ ہسپتال میں موجود مسلمان مریضوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ امتیازی سلوک روا رکھنے کا عمل اس وقت شروع ہوا جب چند مریضوں نے ہسپتال کے عملے کو بتایا کہ وہ مسلمان مریضوں کے ساتھ ایک وارڈ میں نہیں رہ سکتے۔
اکرام مرزا نامی مسلمان رہنما نے بتایا یہ سب گجرات میں ’اسلام فوبیا‘ کا نتیجہ ہے۔ ’لوگ ہمارے (مسلمانوں) ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور حکومت ایسے افراد کی اس آئین اور جمہوریت مخالف مطالبے میں سپورٹ کر رہی ہے۔‘
کووِڈ 19 کا پروٹوکول کیا ہے؟
انڈیا کی وزارتِ صحت کی گائیڈ لائنز کے مطابق کورونا کے مریضوں کی تقسیم تین بنیادوں پر کی جا سکتی ہے۔
پہلا گروپ ایسے مشتبہ اور مصدقہ مریضوں پر مشتمل ہے جن میں بیماری کی کم علامات ظاہر ہوں، دوسرا گروپ ایسے مصدقہ مریضوں کا ہے جن میں بیماری کی علامات درمیانے درجے کی ہیں اور تیسرا گروپ ایسے افراد کا جن میں بیماری کی علامات انتہائی شدید ہوں۔
مریضوں کو علاج کی سہولت ان کی حالت دیکھ کر فراہم کی جا سکتی ہے۔ اس پروٹوکول میں مذہب کی بنیاد پر مریضوں میں تفریق کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

ریاست گجرات اور کورونا وائرس
بدھ کی صبح آٹھ بجے تک گجرات میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 617 تھی۔ 55 مریض صحت یاب ہو چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 26 ہے۔
گجرات کے شہر احمد آباد میں حکام نے اس وقت کرفیو نافذ کیا تھا جب اس علاقے سے سب سے زیادہ متاثرین سامنے آئے۔
ریاست مدھیا پردیش اور مہاراشٹرا کے ساتھ ریاست گجرات میں بھی کورونا کے مریضوں میں شرح اموات دیگر ریاستوں کی نسبت زیادہ ہیں۔
جمعرات کے روز تک ریاست گجرات میں شرح اموات 4.3 فیصد جبکہ ریاست مدھیا پردیش میں 6.84 اور ریاست مہاراشٹرا میں 6.62 فیصد تھی۔
گجرات کے مسلمان اور کورونا وائرس
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں تبلیغی جماعت کے نظام الدین مرکز میں پیش آئے واقعے کے بعد انڈیا میں مسلمانوں پر کورونا وائرس پھیلانے کے الزامات عائد کیے گئے تھے اور اسی تناظر میں احمد آباد پولیس نے بھی سوشل میڈیا پر اس طرح کا پیغام وائرل کرنے والے ایک شخص کو حراست میں لیا۔
پولیس نے ملزم کو گرفتار کر کے مقدمہ بھی درج کیا ہے۔ پولیس نے اس کے علاوہ بھی ایسے بہت سے وائرل پیغامات جاری کرنے والوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے چند گرفتاریاں کی ہیں۔
گجرات میں مسلمان کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چند افراد کو بھی احمد آباد پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب انھوں نے مبینہ طور پر گشت کرنے والی ایک پولیس پارٹی پر پتھراؤ کیا۔ ایسے علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پولیس کا گشت بڑھا دیا گیا ہے۔
ریاست گجرات کے نائب وزیر اعلی نے حال ہی میں رپورٹرز کو آگاہ کیا تھا کہ تبلیغی جماعت کے اراکین کی وجہ سے کورونا بڑے پیمانے پر پھیلا ہے۔
مسلمان اکثریتی ایک اور علاقے دانیلیمڈا میں بھی مکمل کرفیو نافذ ہے۔
احمد آباد کے پولیس کمشٹر اشیش بھاٹیہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’احمد آباد اور دیگر علاقوں میں لگایا جانے والا کرفیو کورونا کے روک تھام کا سبب بننے گا۔ تمام شہریوں کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ انتظامیہ کا اس معاملے میں ساتھ دیں۔‘
احمد آباد میونسپل کارپوریشن کا کہنا ہے کہ 14 اپریل تک احمد آباد میں کورونا کے 346 مصدقہ مریض موجود تھے جن میں سے 200 سے زائد مریضوں کا تعلق اندرون احمد آباد سے ہے۔ اندورن احمد آباد میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔
اب تک احمد آباد شہر میں 6595 افراد کا کورونا ٹیسٹ کیا جا چکا ہے جبکہ شہر میں اب تک 13 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔