انتہائی افسوس کے ساتھ یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ حضرت مولانا مفتی افتخار الحسن صاحب کاندھلوی خلیفہ اجل حضرت اقدس مولانا عبد القادر رائے پوری رح کاندھلہ اپنی رہایش گاہ پر انتقال فرما گئے
انا للہ وانا الیہ راجعون
مؤرخہ 2جون 2019بوقت چھ بجے اچانک معلوم ہوا کہ حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی نوراللہ مرقدہ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے. اللہ رب العزت حضرت والا کو غریق رحمت فرمائے.بندہ ذرا دور تھا. اس لیے رات گیارہ بجے تک ہی کاندھلہ پہنچ پایا. اس خبر کے ساتھ زندگی کے گزشتہ تیس سال میرے ذہن و دماغ پر چھا گئے. حضرت والا کے ساتھ چوتھائی صدی سے بھی زیادہ کا میرا تعلق بار بار ماضی کے جھروکوں سے آوازیں دینے لگا. ان کی یادیں ان کی باتیں رہ رہ کر ایک ٹیس مارنے لگیں.
راقم الحروف نے شعور کی آنکھیں کھولنا شروع کیں تو گھر میں جس شخصیت کا سب سے زیادہ تذکرہ پایا وہ حضرت مولانا افتخار الحسن کاندھلوی نوراللہ مرقدہ تھے. میری عمر چار پانچ برس رہی ہوگی تب سے حضرت مولانا کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا. اس وقت راقم الحروف حضرت والا کے گھر جاتا اور بچوں کے ساتھ کھیل کود کیا کرتا تھا. برادرم احمد ہاشمی میرے اسی وقت کے دوستوں میں ہیں. حضرت والا کی پہلی خصوصیت جس نے مجھے سن طفولیت میں ہی متاثر کیا وہ بچوں سے آپ کا پیار تھا. ہم حضرت والا کو پیار سے دادا ابا کہا کرتے تھے. راقم الحروف کو حضرت والا کے ساتھ متعدد اسفار کا موقع بھی ملا. ایک بار بندہ سرہند کے سفر میں حضرت والا کے ساتھ تھا. اس موقع پر حضرت والا نے سرزمین ہریانہ و پنجاب کے متعلق مختلف تاریخی واقعات بیان کیے .زیادہ تو کچھ یاد نہیں مگر کم عمری میں ہی ان واقعات نے میرے اندر تاریخ کو جاننے اور پھر وسیع تر معنوں میں دوسرے مضامین کے مطالعہ کا شوق پیدا کر دیا.
بچپن سے ہی حضرت والا کے یہاں جو چیز مجھے بے حد متاثر کرتی تھی وہ حضرت والا کی لائبریری تھی. میں ان کتابوں کی اہمیت اور معنویت سے تو واقف نہ تھا مگر دل میں مطالعہ کی امنگیں انگڑائی لینی شروع کر دیتی تھیں.ااس طرح حضرت والا کی صحبت نے میرے اندر مطالعہ کا ذوقِ پیدا کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا. حضرت والا جو واقعات زبانی طور پر پر اپنی مجلس میں بیان فرماتے، آہستہ آہستہ میں ان واقعات کو کتابوں میں بھی تلاش کرنے لگا. بار ہا حضرت والا نے مجھے متعدد کتب بھی عنایت فرمائیں.
بعض اوقات بندہ حضرت والا سے استفسار کرتا تو حضرت والا کے جواب سے معلوم ہوتا کہ فقہ و فتاویٰ کی لمبی لمبی عبارتیں حضرت والا کو ازبر ہیں. میری عمر کوئی پندرہ برس رہی ہوگی. ایک مجلس میں حضرت والا نے سوال فرمایا ای لحیہ یجوز قطعھا (کون سی داڑھی کا کاٹنا جائز ہے) میں نے برجستہ جواب دیا لحیہ المرءہ (عورت کی داڑھی) حضرت والا جواب سن کر بے حد مسرور ہوے.
حضرت والا کا سلسلہ درس قرآن اب بہت اچھی طرح تو یاد نہیں مگر اس درس کی کچھ علمی گفتگو بندہ کو ابھی تک یاد ہے. آج حضرت والا تو اگرچہ ہمارے درمیان حیات نہیں ہیں مگر آپ کی زندگی مجھے بار بار یہ سبق دے رہی ہے – – – – – – – – – اہل علم کو بہترین خراج عقیدت یہ ہے کہ تم حصولِ علم کا سفر مزید شدت کے ساتھ جاری رکھو.
مفتی اطھر شمسی