جموں و کشمیرمیں پی ڈی پی اور بی جے پی کا اتحاد ٹوٹنے ہونے کے بعد پی ڈی پی بھی ٹوٹنے کے کگار پر ہے. پی ڈی پی کو متحد رکھنے کے لئے کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی بھرپور کوشش کر رہی ہیں لیکن پارٹی کے گرتے سیاسی گراف کی وجہ سے کئی اراکین اسمبلی موقع کی تلاش میں ہیں۔
جموں و کشمیر میں پی ڈی پی-بی جے پی اتحادی حکومت وقت سے قبل گر جانے کے بعد پی ڈی پی سربراہ اور ریاست کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے سامنے اپنی پارٹی کو متحد رکھنے کا سخت چیلنج کھڑا ہو گیا ہے۔ بی جے پی سے اتحاد کرنے سے پی ڈی پی کے کئی لیڈران پہلے ہی ناراض تھے، اور اب جب کہ بی جے پی نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا ہے تو محبوبہ مفتی کے خلاف پی ڈی پی لیڈروں کی ناراضگی بھی کھل کر سامنے آنے لگی ہے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ بہت جلد پی ڈی پی کے کئی ناراض ممبران اسمبلی کانگریس میں شامل ہوسکتے ہیں۔دراصل محبوبہ مفتی کا سیاسی گراف لگاتار گرتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پی ڈی پی ممبران اسمبلی کو اپنا سیاسی کیریر بھی مشکل میں نظر آنے لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ ممبران اسمبلی کانگریس کی طرف تو کچھ نیشنل کانفرنس کی طرف اپنی امیدیں تلاش کر رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2014 انتخابات سے قبل کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے کئی سابق ممبران اسمبلی نے پی ڈی پی میں شمولیت اختیارکی تھی اور اب یہی ممبران اسمبلی گھر واپسی کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ اور محبوبہ مفتی کے والد مرحوم مفتی محمد سعید کے نظریات اور ان کی انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے کشمیر اور جموں کے ڈوڈہ، پونچھ حلقہ کے کئی لیڈروں نے پی ڈی پی کا دامن تھاما تھا۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت پی ڈی پی کی وادی میں گرفت کمزور ہوئی ہے اور اس کا اثر لوگوں پر کم دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سال 2016 میں پی ڈی پی نے جب سری نگر کا پارلیمانی سیٹ گنوا دیا تو کمزور ہوتی گرفت کا اشارہ بھی مل گیا تھا۔ علاوہ ازیں پتھر بازی اور دہشت گردانہ واقعات میں جس طرح سے اضافہ ہوا ہے، اس نے بھی پی ڈی پی کی شبیہ کو داغدار کیا ہے۔