حال ہی میں برطانیہ کی تھنک ٹینک کی ایک اسٹڈی میں یہ تسلیم کیا ہے کہ تحریک کشمیر کا دنیا کی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے. اسکے علاوہ حال ہی میں دو سال بعد جموں و کشمیر پولیس کی طرف سے مرکزی حکومت کو بھیجی گئی رپورٹوں میں بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے ۔اور نہ ہی یہ جدوجہد سلفی، وہابی یا کسی اور نظریہ سے وابستہ ہے۔
جولائی 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد جب کشمیر میں حالات کسی بھی صورت میں قابو میں نہیں آرہے تھے،نیز میڈیا آگ میں گھی ڈالنے کا کام کررہا تھا، غالباً وزیر اعظم نریندر مودی کی ایماء اور جموں و کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی استدعا پر میڈیا کے چنندہ ایڈیٹروں کو حالات کی سنگینی کا احساس کروانے کیلئے حکومتی سطح پر بریفنگ کا اہتمام کیا گیا ۔ ملک بھر کے 17ایڈیٹر اور سینئر صحافی وزارت اطلاعات کے صدر دفتر میں سینئر وزاراء کی ایک ٹیم کے روبرو تھے۔
مودی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں وزراء کسی مسئلہ پر میڈیا کو حکومتی موقف اور اسکے مضمرات پر بریفنگ دے رہے تھے۔موجودہ نائب صدر جن کے پاس اس وقت وزیر اطلاعات و نشریات کا قلمدان تھا، نے نظامت سنبھالتے ہی تاکید کی کہ یہ ایک بیک گراؤنڈ بریفنگ ہے، اس لئے سوالات کے علاوہ وہ کھلی بحث اور پریس سے مشوروں کے بھی طالب ہیں۔
ایک سینئر وزیر نے آغاز کرتے ہوئے گذارش کی کہ شورش کو کور کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیتے ہوئے، ملک میں کشمیری عوام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنانے سے گریز کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ اس بات سے پریشان ہیں کہ میڈیا جس طرح کشمیر کور کر رہا ہے اس سے کئی پیچیدگیا ں پیدا ہو رہی ہیں ۔ اس سے کشمیری عوام اپنے آپ کو مزید الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ ان کے اور عوام کے درمیان خلیج مزید وسیع اور گہری ہو تی جا رہی ہے۔