جموں کشمیر سے متعلق دفعہ ۳۷۰؍ ختم کرنے کے خلاف مختلف عرضیوں پر سپریم کورٹ میں منگل کو بھی سماعت جاری رہی۔ اس دوران عدالت عظمیٰ نے مرکز سے کہا کہ جموں کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دینے کے حوالہ سے مدت پر اپنا رخ واضح کریں کیونکہ جمہوریت کی بحالی سب سے زیادہ اہم ہے۔اس پر مرکزی حکومت کی نمائندگی کر رہے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ جموں و کشمیر کا مرکز کے زیر انتظام علاقہ کا درجہ مستقل نہیں ہے اور جلد ہی حالات معمول پر آنے پر اسے مکمل ریاست کا درجہ فراہم کیا جائے گا۔ مہتا نے مزید کہا کہ لداخ کا مرکز کے زیر انتظام علاقہ کا درجہ کچھ وقت تک برقرار رہے گا۔ مرکز اس معاملہ پر جمعرات یعنی ۳۱؍ اگست کو تفصیلی جواب دے گا۔
آئینی بنچ نے کافی سخت تبصرے کئے
دفعہ ۳۷۰؍ کی منسوخی کے خلاف جاری سماعت کے ۱۲؍ویں چیف جسٹس چندر چڈ کی صدارت والی بنچ نےکشمیر کے مکمل ریاست کے درجے کو چھین لینے اور اسے مرکزی حکومت کی زیر نگراں مرکزی خطہ بنادینے پر ناگواری کا اظہار کیا اور کہا کہ جس ریاست سے پہلے اراکین پارلیمنٹ منتخب ہوتے تھے، جہاں پر جمہوریت کا عمل کافی مضبوط ہو گیا تھا وہاں پر حکومت نے ایک دفعہ ختم کرنے کیلئے جمہوری عمل کو ہی پوری طرح سبوزتاژ کردیا ۔ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن اب بھی وقت ہے کہ جمہوری عمل کو بحال کیا جائے۔
۴؍ سال کا عرصہ یاد دلایا
جسٹس چندر چڈ ، جسٹس سوریہ کانت ، جسٹس جسٹس کول ، جسٹس گووائی اورجسٹس سنجیو کھنہ پر مشتمل اس بنچ نے بالکل واضح لفظوں میں کہا کہ کشمیر سے جمہوری عمل کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے زبانی تبصرہ کے دوران یہ بھی کہا کہ جموں کشمیر میں ۴؍ سال سے زیادہ عرصے سےجمہوریت معطل ہے جبکہ اب تک وہاں اس کی بحالی ہوجانی چاہئے تھی ۔
تشار مہتا نے جواب دیا
چیف جسٹس کے تبصرے پر مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہوئے سالیسٹر جنر تشار مہتا نے جواب دیا کہ یہ واضح کرنے کیلئے خاطر خواہ مواد موجود ہے کہ جموں کشمیر کا آئین ہندوستان کے آئین کے ماتحت ہے اور جموں کشمیر کی آئین ساز اسمبلی حقیقت میں قانون ساز اسمبلی تھی جس کی حیثیت کی بحالی جلد ہو جائے گی۔ تشار مہتا نے پارلیمنٹ میں دئیے گئے وزیر داخلہ امیت شاہ کے بیان کا حوالہ دیا اور کہا کہ مرکزی حکومت اعلان کرچکی ہے کہ کشمیر کاریاست کا درجہ بھی بحال ہو گا اور وہاں کی اسمبلی کی بھی بحال کردی جائے گی۔ یہ کچھ وقت کی بات ہے، جلد ہی ہو گا۔
چیف جسٹس نے ٹوکا
اس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے پوچھا کہ ایس جی صاحب آپ کہہ رہے ہیں کہ ریاست کا درجہ بحال ہو گا اور اسمبلی بھی بحال ہو گی لیکن ہمارا سوال برقرار ہے کہ یہ کب ہو گا ؟ اب تک کیوں نہیں ہوا جبکہ آپ ہی کے دعوے کے مطابق وہاں حالات بڑی حد تک نارمل ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ اسی لئے ہم مرکز سے جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کام کب ہو گا؟ کشمیر میں جمہوریت کی بحالی کے لئے ایک ٹائم فریم کیوں نہیں طے کرلیا جاتا؟ اسی لئے ہم مرکزی حکومت نے اس معاملے میں تفصیلی جواب چاہتے ہیں۔ مرکز بتائے کہ کشمیر میں جمہوریت کی بحالی کب ہو گی اور اس کیلئےکتنا وقت طے کیا جارہا ہے؟ وہاں انتخابات کب ہوں گے ؟یہ بھی بتایا جائے۔
تشار مہتا جمعرات کو تفصیلی جواب دیں گے
چیف جسٹس کے سوالوں سے پریشان نظر آرہے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ وہ اس معاملے میں مرکزی حکومت سے گفتگو کرکے وہاں سے ہدایات حاصل کریں گے اور جمعرات کو اس معاملے میں تفصیلی جواب داخل کریں گے ۔ انہوں نے ریکارڈ کے لئے یہ ضرور بتایا کہ کشمیر کو دوبارہ ریاست بنانے کا عمل جاری ہے لیکن نیشنل سیکوریٹی کے مدنظر لداخ کو اگلے کافی وقت کے لئے مرکزی خطہ ہی رہنے دیا جائے گا ۔ چیف جسٹس نے اس بیان کو ریکارڈ پر لے لیا۔