ایسے وقت میں جبکہ ۳۱؍ جولائی کے فرقہ وارانہ تصادم کے بعد نوح اور میوات سمیت پورے ہریانہ میں حالات نازک ہیں ، بھگوا عناصر کی جانب سے شرانگیزیوں کا سلسلہ تھم نہیں رہا ہے۔ ہریانہ کی ۵۰؍ پنچایتوں میں مسلم تاجروں کے داخلے پر پابندی اوران کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد اب کئی علاقوں میں غیر مسلم تاجروں کو ۲؍ دن کا الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں کام کرنے والے مسلم ملازمین کو نوکری سے نکال دیں۔ اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر گشت کرنے والے ویڈیوز میں دیکھا جاسکا ہے کہ بھگوا شرپسند عناصر پولیس کی موجودگی میں مائیک پر مسلمانوں کے بائیکاٹ اور مسلم ملازمین کو نکالنے کیلئے تاجروں کو الٹی میٹم دے رہے ہیں۔
۵۰؍ پنچایتوں میں مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کے تعلق سے نارنول کے سَب ڈویژنل مجسٹریٹ منوج کمار نے بتایا کہ انھیں بائیکاٹ کے خطوط کی نقل تو نہیں ملی لیکن سوشل میڈیا پر خط ضرور دیکھا ہے اور بلاک دفتر سے سبھی پنچایتوں کو وجہ بتاؤ نوٹس بھیجنے کو کہا ہے۔
ہریانہ کے نوح میں تشدد کے بعد اب حالات دھیرے دھیرے معمول پر ضرور آ رہے ہیں مگرمسلمانوں کیلئے مسائل کم ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہریانہ کی درجنوں پنچایتوں نے مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کےباقاعدہ تحریری فرمان جاری کئے ہیں جو تشویش کا باعث ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ۳؍ اضلاع ریواڑی، مہندر گڑھ اور جھجر کی ۵۰؍ سے زائد پنچایتوں کے سرپنچوں کے دستخط کے ساتھ جاری کئے گئے خطوط میں گاؤں میں رہنے والے مسلمانوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی شناخت سے متعلق دستاویزات پولیس میں جمع کرائیں۔بیشتر گاؤں میں اقلیتی طبقہ کا کوئی بھی باشندہ نہیں ہے۔کہیں چند ایک کنبے ہیں جو ۳؍ سے ۴؍نسلوں سےمقیم ہیں۔ سَب ڈویژنل مجسٹریٹ منوج کمار اعتراف کیا ہے کہ ایسے خط جاری کرنا قانون کے خلاف ہے۔
خط کیوں جاری کیا گیا، یہ پوچھنے پر مہندر گڑھ کے سیدپور کے سرپنچ وکاس نے بتایا کہ ’’نوح تشدد کے ٹھیک بعد ہم نے یکم اگست کو پنچایت کی اور امن بنائے رکھنے کیلئے انھیں اپنے گاؤں میں داخل نہ ہونے دینے کا فیصلہ کیا۔‘‘ وکاس نے بتایا کہ یہ معلوم ہونے کےبعد کہ مذہب کی بنیاد پر بائیکاٹ غیر قانونی ہے، انہوں نے اس خط کو واپس لے لیا ہے ۔ بہرحال بائیکاٹ کا جو ویڈیو شیئر ہورہاہے،اس پر خاموشی ہے۔