سپریم کورٹ نے جمعہ کو اپنے اہم فیصلے میں مودی سرنیم سے متعلق ہتک عزت کے معاملہ میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو سنائی گئی سزا کو معطل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے اس دوران تبصرہ کیا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ’پروچن‘ کی طرح محسوس ہو رہا ہے جس میں فیصلہ کی جزئیات کم اور نصیحتیں زیادہ ہیں۔ کورٹ نے یہ تبصرہ بھی کیا کہ راہل گاندھی کو اس معاملے میں زیادہ سے زیادہ سزا دینا ضروری نہیں تھا۔ واضح رہے کہ کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اب راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت بحال ہو جائے گی اور وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں بھی حصہ لے سکیں گے۔ انہوں نے سزا معطل ہونے کے بعد اپنے پہلے ٹویٹ میں حکومت کو وارننگ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ آرہا ہوں …. سوال جاری رہیں گے …. مجھے معلوم تھا کہ سچائی کی ایک نہ ایک دن جیت ہوتی ہے اور آج وہی دن ہے۔‘‘
پارٹی اور وائناڈ میں جشن
راہل کی سزا معطل ہونے کےبعد نہ صرف گاندھی خاندان نے بلکہ کانگریس پارٹی نے بھی زبردست جشن منایا۔ جشن کا عالم راہل گاندھی کے پارلیمانی حلقہ انتخاب وائناڈ میں بھی تھا جہاں سے وہ ۲۰۱۹ء میں ۴؍ لاکھ سے زیادہ ووٹوں کے ریکارڈ فرق سے فتح یاب ہوئے تھے۔ چونکہ سورت کی عدالت سے راہل کو سزا ملنے کے بعد ان کی پارلیمنٹ کی رکنیت فوری طور پر منسوخ کردی گئی تھی اس لئے وائناڈ سے کوئی رکن پارلیمنٹ نہیں تھا مگر اب راہل گاندھی فوری طور پر واپس آسکتے ہیں۔اس تعلق سے کانگریس پارٹی نے باقاعدہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے۔
عدالت نے کئی اہم نکتوں پر تبصرہ کیا
جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دوران عدالت نے شکایت کنندہ پُرنیش مودی کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ مہیش جیٹھ ملانی سے پوچھا کہ سورت کی عدالت نے زیادہ سے زیادہ سزا کس بنیاد پر دی؟ فیصلہ میں ایک جملہ بھی اس تعلق سے نہیں ہے۔ اس سے کم سزا بھی تو دی جا سکتی تھی جس سے وائناڈ کے پارلیمانی حلقے کے عوام کے حقوق بھی پامال نہ ہوتے اور ان کا نمائندہ برقرار رہتا۔ مہیش جیٹھ ملانی اس سوال پر بغلیں جھانکنے لگے۔ اس کے بعد جسٹس گووئی ، جسٹس نرسمہا اور جسٹس سنجے کمار کی سہ رکنی بنچ نے راہل گاندھی کے وکیل ابھیشیک منو سنگھوی سے کہا کہ اس معاملے میں اگر انہیں بری ہونا ہے تو انہیں بہت طاقتور اور فوری اثر دلائل دینے ہوں گے کیوں کہ جو تبصرے انہوں نے کئے ہیں وہ نامناسب ہیں۔ عدالت نے اس دوران گجرات ہائی کورٹ اور سورت کی عدالت دونوں کے فیصلوں پر ناراضگی ظاہر کی ۔
گجرات ہائی کورٹ پر تبصرہ
بنچ نے کہا کہ گجرات ہائی کورٹ کے جج کا حکم پڑھنا بہت دلچسپ ہے۔ اس میں انہوں نے کافی ’پروچن‘ دیا ہے۔ اس پر سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ کئی بار سپریم کورٹ کو وجوہات نہ بتانے پر ہائی کورٹس کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اسی لیے ہائی کورٹ تفصیلی وجوہات بیان کرتا ہے۔ لیکن بنچ نے کہا کہ اس طرح کے تبصرے اور نصیحتیں کرنے کے لئے تو نہیں کہا جاتا ہے۔ یہ حوصلہ شکن تبصرے ہیں۔ جسٹس گووائی نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس طرح کےتبصرے حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں اسی لئے ہم انہیں لکھنے میں وقت لگاتے ہیں اوربہت غور و فکر کے بعد ہی لکھتے ہیں۔
راہل گاندھی کے وکیل کے دلائل
ادھر ایڈوکیٹ سنگھوی نے اپنے دلائل میں کہا کہ اس وقت وہ کیس سے بری کرنے کی بات ہی نہیں کررہے ہیں۔ ان کا کہنا صرف اتنا ہے کہ یہ سزا بہت زیادہ بلکہ ضرورت سے زیادہ ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے نہ صرف ان کے موکل کی شخصی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی پر قدغن لگا ہے بلکہ اس سے وائناڈ کے کئی کروڑ شہری پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی سے محروم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے یہ دلیل بھی دی کہ جس پُرنیش مودی نےیہ کیس دائر کیا ہے وہ ’مودی ‘ کمیونٹی سے ہے بھی نہیں ۔ یہ بات وہ اپنے حلف نامہ میں کہہ چکے ہیں اور مودی کمیونٹی سے آج تک کسی نے شکایت تک نہیں کہ وہ راہل گاندھی کے مذکورہ بیان سے اپنی ہتک محسوس کررہے ہیں۔ سنگھوی کے مطابق یہ کیس صرف اور صرف راہل گاندھی سے نفرت کی بنیاد پر دائر کیا گیا ہے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے حکم میں راہل گاندھی کے خلاف ذکر کئے گئے ۱۳؍ مجرمانہ کیسیز کے تبصرے پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ ان کیسیز میں سے ایک بھی کیس کسی سنگین جرم کے تعلق سے نہیں ہے اور نہ ان میں ۲؍ سال سے زیادہ کی سزا ہو سکتی ہے ۔ وہ سزا تو جانے دیجئے اب تک ایک بھی کیس میں مقدمہ تک شروع نہیں ہوا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کیسیز جنہوں نے بھی درج کروائے ہیں ان کا ریکارڈ دیکھ لیں تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ سبھی بی جے پی لیڈر ہیں یا بی جے پی کارکن