راہل گاندھی یہ ثابت کرنے پر بڑی جانفشانی کے ساتھ آمادہ ہیں کہ اُنہیں جتنے لوگوں نے بی جے پی کے پروپیگنڈے کا شکار ہوکر غیر سنجیدہ اور نہ جانے کیا کیا سمجھ لیا تھا، وہ غلطی پر تھے۔ اب راہل گاندھی کا ایک نیا اوتار سب کے سامنے ہے۔ اس نئے راہل کا ظہور بھارت جوڑو یاترا کے دوران ہوا۔ تب سے لے کر اب تک وہ خود کو غیر معمولی طور پر سنجیدہ، پارٹی کو نئی توانائی عطا کرنے کیلئے فکرمند، محنتی، باصلاحیت، سوجھ بوجھ کا حامل اور سیکھنے کیلئے تیار لیڈر کے طور پر منوانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس کا ثبوت کرناٹک کی حالیہ ریلیوں میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔
ان ریلیوں سے اُن کے خطابات کو سامنے رکھئے تو اُن میں راہل ایک باشعور اور ملک کی سیاست کو سمجھنے والے لیڈر کے طور پر اپنی شناخت قائم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان ریلیوں میں اُنہوں نے گریہہ جیوتی، گریہہ لکشمی اور یو ُوا ندھی جیسے انتخابی وعدے تو کئے جو اپنی جگہ اہم ہیں اور ان سے انتخابی لڑائی میں کانگریس کو فائدہ پہنچنے کی اُمید کی جاسکتی ہے مگر ، ایک بڑا موضوع بھی اُنہوں نے چھیڑا ہے۔ وہ ہے اوبی سی، دلت اور ادیباسی عوام کی حصہ داری۔ اُنہوں نے جہاں طبقاتی مردم شماری (جاتیہ جن گرنا) کا مطالبہ کیا اور اس طرح اپوزیشن کی دیگر سیاسی جماعتوں کی تائید کی وہیں ایک نیا نعرہ خلق کیا۔ وہ ہے ’’جس کی جتنی آبادی اُتنا اُس کا حق۔‘‘ اسے راہل گاندھی کا اوبی سی کارڈ کہئے یا کچھ اور۔ اس میں دم ہے او راسے کانگریس کا ماسٹر اسٹروک کہا جاسکتا ہے۔
یہ ماسٹر اسٹروک بی جے پی کی طبقاتی سیاست کیلئے،جس کا اُسے غیر معمولی انتخابی فائدہ حاصل ہورہا تھا، ایک بڑا چیلنج ہے۔ راہل کا کہنا ہے کہ اوبی سی کی آبادی دیکھ لیجئے اور اُنہیں اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں ملنے والے مواقع دیکھ لیجئے، دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائیگا کہ او بی سی کی دُہائی دینے والی بی جے پی، اوبی سی کو کیا دے رہی ہے۔ اس اوبی سی کارڈ کے ذریعہ کانگریس نے راہل گاندھی پر لگائے گئے اُس الزام کو بے اثر کردیا ہے جس میں کہا جارہا تھا کہ راہل نے مودی سرنیم والوں کو چور کہہ کر او بی سی سماج کی بے عزتی کی ہے۔ کرناٹک کی ریلیوں میں راہل نے مرکزی حکومت اور حکمراں جماعت کو دباؤ میں لینے کیلئے یہ بھی کہا کہ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں مختلف طبقات کی آبادی کا جو بیورا ہے اُسے عام کیا جائے۔
یہ کارڈ کرناٹک میں کانگریس کی کامیابی کے امکانات کو روشن تر کرنے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ اس میں بی جے پی کے گزشتہ ماہ کے فیصلے کی کاٹ بھی موجود ہے جس کے ذریعہ کرناٹک حکومت نےلنگایت اور ووکالنگا برادریوں کیلئے نئے ریزرویشن کا انتظام اور اعلان کیا تھا جس کی زد مسلمانوں پر پڑی ہے اور او بی سی کیٹگری میں اُن کا ۴؍ فیصد ریزرویشن ختم ہوا۔
راہل کی باتوں میں اب زیادہ وزن اور گہرائی ہے۔ اُنہوں نے کرناٹک کی بی جے پی حکومت پر لگنے والے ۴۰؍ فیصد کمیشن کے الزام سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اس ۴۰؍ فیصد کے ذریعہ جمع شدہ رقم کو انتخابات کے بعد ایم ایل ایز خریدنے پر صرف کیا جاسکتا ہے اس لئے عوام کو چاہئے کہ کانگریس کو ۱۵۰؍ سیٹیں دلوائیں اور بی جے پی کو ۴۰؍ سیٹوں پر روکیں۔ یہ آواز اُس پُراعتماد راہل کی ہے جو کرناٹک میں پارٹی کی کامیابی کو زیادہ سے زیادہ سیٹوں میں بدلنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ راہل نے بھارت جوڑو یاترا میں کرناٹک کو خاص اہمیت دی تھی ۔