یہ صحیح ہے کہ امریکہ کے سابق صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک عدالت میں خود سپردگی کی اور پھر وہ رہا کر دیئے گئے مگر یہ بھی سچ ہے کہ گرفتار کر لئے جانے کے خوف میں مبتلا ہونے والے وہ پہلے امریکی سابق صدر اور ۲۰۲۴ء کے الیکشن میں ریپبلکن پارٹی کے متوقع امیدوار ہیں۔ ان کے خلاف ایک دو نہیں ۲۴؍ فوجداری الزامات ہیں۔ ان الزامات کے بارے میں وہ چاہے جو کہہ رہے ہوں اور امریکی عدالت ان کے مقدر کا چاہے جو فیصلہ کرے مگر یہ تو طے ہے کہ ’’مین ہٹن گرینڈ جیوری‘‘ کی اکثریت نے ان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلانے کی اجازت دی ہے۔ ’’مین ہٹن گرینڈ جیوری‘‘ سے امریکی شہریوں کی وہ جماعت مراد ہے جو کسی شخص پر عائد الزامات کی بنیادوں کا تجزیہ کرتی ہے یعنی یہ دیکھتی ہے کہ کسی شخص کو پھنسانے کے لئے یا سیاسی انتقام کے طور پر تو اس کے خلاف الزامات نہیں عائد کئے گئے ہیں۔ اس جیوری میں ۲۳؍ افراد شامل ہیں اور انہوں نے الزامات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ہی کثرت رائے کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا ہے یا رائے دی ہے کہ ان کے خلاف فوجداری مقدمہ چلایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی اس چیخ و پکار کو پہلے ہی مسترد کیا جاچکا ہے کہ سیاسی انتقام کے طور پر یا ۲۰۲۴ء کے صدارتی الیکشن میں امیدوار بننے سے روکنے کیلئے ان کے خلاف الزامات عائد کئے گئے ہیں۔
جب تک الزامات ثابت نہیں ہو جاتے یا عدالت کوئی فیصلہ نہیں دے دیتی ڈونالڈ ٹرمپ کے خلاف کہی جانے والی تمام باتیں الزام ہی کہی جائیں گی مگر ان کی ابتدا جس بنیاد پر ہوئی وہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ جنوری ۲۰۱۸ء میں امریکی اخبار ’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘ نے لکھا کہ اکتوبر ۲۰۱۶ء میں اس وقت کے ڈونالڈ ٹرمپ کے وکیل مائیکل کوہین نے پارن اسٹار یعنی فحش فلموں میں کام کرنے والی اداکارہ اسٹارمی ڈینیلس کو ۱ء۳۰؍ لاکھ ڈالر کی رقم اس لئے ادا کی کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ سے اپنے جسمانی رشتے کی بات زبان پر نہ لائے۔ امریکی قانون کے مطابق یہ کوئی جرم نہیں ہے مگر اس کو جرم اس لئے تسلیم کیا گیا کہ یہ رقم کوہین کے توسط سے ادا کی گئی اور کوہین نے اس رقم کو قانونی فیس کے طور پر درج کیا۔ یہ معاملہ اس طرح دستاویز میں چھیڑ چھاڑ کا مسئلہ بن گیا جو نیویارک میں جرم تصور کیا جاتا ہے۔
آئندہ ان پر یہ الزام بھی عائد کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ڈینیلس سے اپنے رشتے کو چھپانے اور امریکی رائے دہندگان کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ ڈینیلس اصل نام نہیں ہے، اصل نام اسٹیفنی گریگری ہے وہ صرف بالغوں کیلئے بنائی گئی فلموں میں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۶ء کی گرمیوں میں جب ان کی عمر ۲۷؍ سال تھی اور ٹرمپ کی ۶۰؍ سال کی، گولف ٹورنامنٹ بھی چل رہا تھا، ٹرمپ نے نواڈا کے ایک ہوٹل میں ان کو بلایا تھا اور ٹی وی اسٹار بنانے کا وعدہ کرکے ان کے ساتھ جسمانی تعلق قائم کیا تھا حالانکہ وہ اس کے لئے پوری طرح تیار نہیں تھی۔ ’’پوری طرح تیار نہیں تھی‘‘ کی بھی خوب رہی، مادی فائدے کیلئے کمزور پڑ جانے والی عورتیں اکثر اس قسم کے جملے استعمال کرتی ہیں۔ اسٹارمی تو ماں باپ میں طلاق ہوجانے کے بعد کلبوں میں کام کرکے روپے کماتی رہی ہیں۔ انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کے وکیل کے توسط سے ایک بڑی رقم بھی قبول کی ہے تاکہ اپنی زبان بند رکھیں۔ ان کی اس بات کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ہوٹل کے کمرے میں ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ جو کیا اس کیلئے پوری طرح تیار نہیں تھیں۔ ہندوستان میں بھی ایسے کئی معاملات سامنے آچکے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایسی لڑکیوں اور عورتوں کی کافی تعداد ہے جو سرمایہ داروں، سیاستدانوں اور اقتدار میں حصہ داری کرنے والوں کو راغب کرتی ہیں یا ان کے مطالبات کو پورا کرتی ہیں اور پھر پوری طرح تیار نہ ہونے کا عذر لنگ پیش کرکے رقم بھی اینٹھتی ہیں۔ باقاعدہ بلیک میل کرنے کے واقعات بھی بہت ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ قتل یا تشدد کے کسی معاملے میں گرفتار کئے جانے کے خطرے میں مبتلا نہیں تھے۔ ان پر الزام بھی پہلے ہی سے طے تھا اس لئے وہ خود ہی عدالت میں پیش ہوئے اور خود سپردگی کی، مگر خود سپردگی نہ کرتے تو گرفتار کئے جاتے۔ ان کے خلاف قتل اور تشدد کا کوئی معاملہ نہیں ہے اس لئے ان کی ضمانت اور رہائی بھی طے تھی جو ہوئی۔ فوجداری معاملہ درج کئے جانے کے بعد ریپبلکن پارٹی ان کو اپنا صدارتی امیدوار بنائے گی یا نہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے، البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی پارٹی اگر ان کو اپنا امیدوار بناتی ہے تو وہ الیکشن بھی لڑ سکتے ہیں اور انتخابی مہم میں بھی شامل ہوسکتے ہیں؟ نتیجہ چاہے جو برآمد ہو۔
ڈونالڈ ٹرمپ کیخلاف مقدمے کا فیصلہ مہینوں بعد آئے گا، تبھی کہا جاسکے گا کہ وہ قصور وار ہیں یا نہیں یا یہ کہ وہ آئندہ صدارتی الیکشن میں کامیاب ہوں گے یا نہیں؟ مگر دو باتیں تو واضح ہوچکی ہیں۔ پہلی یہ کہ گرینڈ جیوری میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو انہیں قصور وار سمجھتے ہیں۔ دوسری یہ کہ جب وہ خود سپردگی کر رہے تھے تو عدالت کے باہر مظاہرین دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک جماعت ان کے حامیوں کی تھی جو دوسرے نعروں کے ساتھ ’’ٹرمپ یا موت‘‘ کا نعرہ بلند کر رہی تھی تو دوسری طرف مخالفین کی جماعت تھی جو ’’ٹرمپ ہمیشہ جھوٹ بولتے ہیں‘‘ لکھے ہوئے بینر آویزاں کئے ہوئے تھی۔
ٹرمپ کا جھوٹ بولنا ثابت بھی ہوچکا ہے۔ اگر وہ بے قصور ہیں تو انہوں نے فحش فلموں کی اداکارہ کا منہ بند کرنے کیلئے اپنے وکیل کے توسط سے بڑی رقم کیوں ادا کی؟ ٹرمپ معاملے میں اگر کوئی بات باعث تعجب ہے تو یہ کہ ان کی باتیں سن کر یا ان کا چہرہ دیکھ کر جو تاثر ابھرتا ہے وہ ایک جنونی یا آسیب زدہ شخص کے چہرے کا ہوتا ہے اس تاثر کو وہ بیانات و اقدامات تقویت بھی پہنچاتے ہیں جو انہوں نے صدر یا صدارتی امیدوار کی حیثیت سے دیئے تھے پھر ان میں اتنا داؤ پیچ یا ہوشمندی کیسے آگئی کہ انہوں نے ایک عورت کو ٹی وی اسٹار بنانے کا وعدہ کرکے جسمانی طور پر استعمال کیا اور پھر منہ بند رکھنے کیلئے اس کو بڑی رقم بھی ادا کی۔ نیت صاف نہ ہو تو جو جرم نہیں ہوتا وہ بھی جرم بن جاتا ہے۔ ٹرمپ نے بھی الزام عائد کرنے یا بیان دینے والی عورت کو ایک بڑی رقم دینے کا فیصلہ کیا جو جرم نہیں ہے مگر بڑی رقم کی ادائیگی کا جو طریقہ اختیار کیا یا ان کے وکیل نے جو کیا اس سے وہ جرم بن گیا۔ اسی جرم میں ان پر مقدمہ درج ہوا، وہ عدالت میں خود سپردگی کرنے پر مجبور ہوئے اور پھر موجودہ قانون کے تحت ہی رہا ہوئے یعنی گرفتاری اور رہائی کا سارا معاملہ جرم کا تو ہے ہی نادانی کا بھی ہے۔ شاید اس نادانی کا ہی نتیجہ ہے کہ عدالت کے کوئی فیصلہ سنانے سے پہلے ہی گرینڈ جیوری کے ممبران کی اکثریت اور عوام کی ایک جماعت نے اعلان کر دیا ہے کہ ٹرمپ قصور وار ہیں۔ یہ لمحہ ان کے ہمنواؤں کے لئے بھی احتساب کا ہے۔