ہم نے ابھی دو روز قبل ہی کہا تھا کہ شرد پوار کو سمجھنا مشکل ہے۔ اُن کے ذہن میں کچھ اور زبان پر کچھ ہوتا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہے۔ سیاست کا ادنیٰ طالب علم بھی یہ راز جانتا ہے۔ پچھلے ہفتے شرد پوار نے کہا تھا کہ اڈانی معاملے کی تفتیش اور شنوائی کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کا مطالبہ درست نہیں۔ اس بیان پر کافی تنقیدیں ہوئیں جس کے بعد منگل کو انہوں نے بات پلٹ دی اور کہا کہ وہ جے پی سی کی مخالفت نہیں کرینگے حالانکہ اُنہیں اس سے اتفاق نہیں ہے۔
دو الگ وقت میں دو مختلف بیانوں کی منطق کیا ہے؟ منطق ہے اور یہی شرد پوار کی سیاست کا امتیازی پہلو ہے۔ پہلے بیان کے ذریعہ، جو طویل انٹرویو کا حصہ تھا، انہوں نے اڈانی سے اپنا پرانا تعلق نبھایا، تاکہ کہہ سکیں کہ بُرے وقت میں مَیں خاموش نہیں تھا، مَیں نے ساتھ نبھایا اور دفاع کیا وہ بھی ایسے وقت میں جب خود بی جے پی کے ترجمانوں اور لیڈروں کی زبانیں گنگ تھیں۔ کم از کم اڈانی کے معاملے پر وہ کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ شرد پوار نے اپنے اسی بیان کے ذریعہ ایک کام اور کیا۔ اُنہوں نے حکمراں جماعت کی ڈھارس بندھائی کہ دیکھئے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود مَیں نے آپ کی مدد کی۔ (انہوں نے اور بھی معاملات میں حکمراں جماعت اور حکومت کی مدد کی۔ وزیراعظم کی ڈگری تنازع کو غیر ضروری اور ہنڈن برگ کی رپورٹ کو یہ کہتے ہوئے بے معنی قرار دیا کہ وہ ایسے کسی ادارہ سے واقف بھی نہیں ہیں یعنی رپورٹ پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا)۔
پوار کا یہ انٹرویو بجٹ سیشن کے اختتام کے فوراً بعد منظر عام پر آیا۔ اس سلسلے میں ناقدین کا کہنا تھا کہ پوار اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد کو نقصان پہنچا رہے ہیں مگر جو لوگ شرد پوار کو جانتے ہیں وہ سمجھ رہے تھے کہ بات انٹرویو سے شروع ہوکر انٹرویو پر ختم نہیں ہوجائیگی، اُنہیں سمجھئے، اگر وہ کچھ کہیں تو اسے اسٹارٹر سمجھ کر مین کورس کا انتظار کیجئے۔ اب آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہی ہوا۔ ٹھیک چار روز بعد انہوں نے اپنے بیان کو ’’ٹھیک‘‘ کردیا۔ اِس طرح پہلے اور دوسرے بیان کے درمیانی وقفے میں انہوں نے ’’موڈ آف دی نیشن‘‘ جان لیا جس سے معلوم ہوا کہ اگر اپوزیشن کے اتحاد کو زک پہنچی تو یہ اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا ہوگا۔
ہم نے پوار صاحب کے دو بیانوں کو سامنے رکھ کر غوروخوض کیا تو مذکورہ باتیں سمجھ میں آئیں۔ کچھ لوگ اسے سونیا گاندھی کے اُس مضمون کا اثر سمجھ رہے ہیں جو ’’دی ہندو‘‘ میں شائع ہوا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ سونیا کا مضمون نہ چھپتا تب بھی پوار وہی کرتے جو انہوں نے کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوار زیرک سیاستداں ہیں، عوام کی نبض جانتے ہیں۔ انہیں اس حقیقت سے روشناس ہونے میں دیر نہیں لگی کہ ملک میں اس وقت اڈانی مخالف ماحول پایا جارہا ہے اور تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے خیال میں شرد پوار نے جو کچھ کیا سوچ سمجھ کر کیا۔ یہی ان کا انداز ِسیاست ہے۔ مہاراشٹر کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اگر شرد پوار نے اپنا بیان نہ بدلا ہوتا اور اڈانی کا دفاع جاری رکھا ہوتا تو لوگ اُن کی پارٹی چھوڑ دینے میں بھی تردد نہ کرتے۔ ہم نہیں جانتے کہ کیا واقعی اڈانی مخالف رجحان اس حد تک پروان چڑھ چکا ہے کہ سیاسی لیڈران سیاسی مفادات بھول جائیں مگر یہ تو ہم بھی دیکھ رہے ہیں کہ اڈوانی تنازع نے نئی اور غیر متوقع دشواریوں میں اُلجھا دیا ہے۔