رمضان المبارک ،ماہِ صیام نیکیوں کا موسمِ بہار ہے،اس کے شب و روز انتہائی بابرکت اور اہل ِ ایمان کے لئے اللہ تعالیٰ کا عظیم انعام ہیں۔ اس ماہ ِ مبارک کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا جہنم سے نجات کا ہے۔ عنقریب ہی ہم ماہ ِرمضان کے آخری عشرے میں داخل ہوجائیں گے، ان شاء اللہ۔ یہ وہ عشرہ ہے جس کی طاق راتوں میں شب قدر کی تلاش کا حکم ہے۔ یوں تو پورا رمضان ہی عبادت، ذکرو اذکار، تلاوت قرآن، فرائض و نوافل کی پابندی، صدقہ و خیرات اور نیکی و احسان کا مہینہ ہے، مگر اس کے آخری عشرے کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ آپﷺ آخری عشرے میں باقی ایام کی نسبت عبادت کا زیادہ اہتمام فرماتے تھے۔خود بھی جاگتے اور اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے،جس سال آپ ﷺ نے رحلت فرمائی، اس سال آپﷺ نے رمضان میں بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ کسی وجہ سے اعتکاف نہ کرسکے تو اس کے عوض شوال کے مہینے میں اعتکاف فرمایا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل آنحضرتﷺ کو کس قدر محبوب تھا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ایک دن کااعتکاف کرے گا،اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کوآڑ بنادے گا۔ جن کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہوگی۔ ‘‘اسی طرح آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرے تو اس کا یہ عمل دو حج اور دو عمروں جیسا ہوگا۔ ‘‘
اعتکاف کا لغوی معنی ہے ٹھہرنا اور رکنا۔ اصطلاح شریعت میں کوئی شخص اللہ کا قرب حاصل کرنے،اس کی عبادت، ذکر و اذکار کرنے کی نیت سے مسجد میں ایک خاص مدت کے لئے قیام کرے تو اسے اعتکاف کہتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسولﷺ نے معتکف (اعتکاف کرنے والے) کے بارے میں فرمایا کہ اعتکاف کرنے والا چونکہ (اعتکاف کے زمانے میں) گناہوں سے رکا رہتا ہے، اس لئے اس کے حق میں تمام نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔‘‘یعنی اعتکاف کرنے والا اعتکاف کی وجہ سے رکا ہوا تو گناہوں سے ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل واحسان کا معاملہ اس کے ساتھ یہ ہے کہ اس کے حق میں وہ تمام نیکیاں بھی لکھ دی جاتی ہیں جو اس دوران وہ مسجد سے باہر ہونے کی صورت میں کرتا، یعنی یہ بات تو نہیں لکھی جاتی کہ وہ مسجد سے باہر ہوتا تو یہ بدی یا برائی کرتا، لیکن یہ لکھا جاتا ہے کہ وہ مسجد سے باہر ہوتا تو یہ نیکی کرتا۔ مثال کے طور پر نماز جنازہ کی ادائیگی، بیمار پرسی، اسلام کی تعلیم اور دین کی اشاعت وغیرہ۔ ایک اور مقام پر رسولﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص رمضان میں دس روز کا اعتکاف کرتا ہے تو اسے دو مقبول حج اور عمرے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔‘‘
رمضان کے آخری عشرے میں جو اعتکاف کیا جاتا ہے ،وہ سنت ِ مؤکدہ کفایہ ہے، یعنی مسلمانوں کو بحیثیت اجتماعی اس سنت کا اہتمام کرنا چاہئے، کیوںکہ احادیث میں اس کی انتہائی تاکید کی گئی ہے۔ خود نبی اکرمﷺ کی وصال تک اس پر مداومت رہی، اس لئے اگر مسلمان اس سنت کو اجتماعی طور پر چھوڑ دیں گے تو سب گناہ گار ہوں گے اور اگر بستی کے کچھ افراد بھی اس سنت کا اہتمام کر لیں تو چوں کہ یہ سنت کفایہ ہے، اس لئے چند افراد کا اعتکاف سب کی طرف سے کافی ہے۔ یہ عمل انتہائی خرابی کا باعث ہو گا کہ مسلمان بحیثیت مجموعی اللہ کے رسولﷺ کے اس پسندیدہ عمل سے بے اعتنائی برتیں۔اعتکاف کی تین قسمیں ہیں (۱)اعتکاف واجب (۲) اعتکاف سنت اور (۳)اعتکاف مستحب۔
اعتکاف واجب: اگر کسی شخص نے یہ منت مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں ایک دن یا دو دن کا اعتکاف کروں گا اور پھر وہ کام ہوگیا تو اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اعتکاف کرے،یا د رہے کہ اعتکاف واجب کے لئے روزہ شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف واجب صحیح نہیں ہے۔ (درمختار)
اعتکاف سنت مؤکدہ:یہ اعتکاف رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج ڈوبنے کے بعد یا انتیسویں رمضان کو چاند ظاہر ہونے کے بعد مسجد سے نکلے،یاد رہے کہ اعتکاف کی یہ قسم سنت مؤکدہ کفایہ ہے، یعنی اگر تمام اہل محلہ اسے چھوڑدیں گے تو سب آخرت میں مؤاخذہ میں گرفتارہوں گے اور اگر ایک آدمی نے بھی اعتکاف کرلیا تو سب آخرت کے مؤاخذے سے بری ہوجائیں گے۔ اس اعتکاف میں بھی روزہ شرط ہے، مگر وہی رمضان کے روزے کافی ہیں۔ (درمختار)
اعتکاف مستحب: اعتکاف مستحب یہ ہے کہ جب کبھی بھی دن یا رات میں مسجد کے اندر داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرے جتنی دیر مسجد میں رہے گا، اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ نیت کے لئے صرف دل میں اتنا خیال کرلینا اور منہ سے کہہ لینا کافی ہے کہ میں نے اللہ کے لئے اعتکافِ مسجد کی نیت کی۔ (فتاویٰ عالمگیری)
اعتکاف کرنے والے کو چاہئے کہ اپنا زیادہ تروقت نفلی نمازوں، تلاوت قرآن مجید، علم دین کی تحصیل وغیرہ میں گزارے، دنیوی اور فضول باتوں سے احتراز کرے۔ باوضو ہونے کا اہتمام کرے اور بکثرت درود شریف کا ورد کرے۔