ساری دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان جنت نشان دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے ہندوستان کو’’جمہوریت کی ماں‘‘کا قراردے کر دنیا کے علم میں اضافہ کیا ہے۔ابھی تک دنیا امریکہ کو قدیم ترین جمہوریت تسلیم کرتی تھی۔ مودی جی کے اس نئے دعوے سے امریکہ کا یہ دیرینہ اعزاز خطرے میں نظر آرہا ہے۔
پچھلے ہفتے امریکی صدر جو بائیڈن کے ذریعہ منعقد کی گئی جمہوریت کی چوٹی کانفرنس سے ورچوئلی خطاب کرتے ہوئے مودی جی نے اپنے اس دعوے کی حمایت میں ویدوں اور مہابھارت جیسی مقدس کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ باقی دنیا سے بہت پہلے ہندوستان میں شہریوں کے ذریعہ سربراہوں کو منتخب کئے جانے کا طریقہ رائج تھا۔مودی جی نے فرمایا۔ ’’مہابھارت میں لیڈر کے انتخاب کو شہریوں کا اولین فرض بتایا گیا ہے۔‘‘
مجھے لگتا ہے کہ وزیر اعظم کو یہ آگہی کہ ہندوستان جمہوریت کی جائے پیدائش ہے ،ابھی چند سال قبل ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے ستمبر ۲۰۲۱ء میں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے عالمی برادری کوپہلی بار یہ گیان دیا کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے۔
آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ مودی جی پچھلے دو برس سے اتنی شدت سے دنیا کو’’انڈیا از مدر آف ڈیموکریسی ‘‘کا درس کیوں دینے لگے ہیں۔ ۲۰۱۹ء میں اقتدار میں واپسی کے بعدمودی حکومت نے ایک کے بعد ایسے متعدد اقدام کئے جن سے دنیا کو اس کے غیر جمہوری عزائم کا پتہ چل گیا۔ کشمیر کی خودمختاری کا خاتمہ ہو یا متعصبانہ شہریت قانون، حکومت کے ان اقدام کو ملک کی آئینی اور جمہوری اقدار کے منافی سمجھا گیا۔سرکار کے ذریعہ جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کی کوششوں، مخالفین کو سبق سکھانے کے لئے جانچ ایجنسیوں کے بیجا استعمال، اپوزیشن پارٹی کے منتخب اراکین اسمبلی کو ورغلا کر کئی صوبوں میں بی جے پی کا بیک ڈور سے اقتدار پر قابض ہونا، میڈیا کی آزادی سلب کرنا، پرامن احتجاج کرنے والوں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنانا جیسے واقعات سے یہ تاثر مستحکم ہوتا گیا کہ ملک میں جمہوریت کو ٹھکانے لگانے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔
اپوزیشن کی دگرگوں حالت، اقتدار کے سامنے میڈیا کی مکمل خود سپردگی اور خوف اور مصلحتوں کی وجہ سے سول سوسائٹی کی خاموشی کی وجہ سے ملک کے اندر حکومت کے غیر جمہوری رویوں پر زیادہ تنقید نہیں ہوتی ہے۔ لیکن بین الاقوامی سطح پر پچھلے کئی برسوں سے مودی سرکار کی بڑھتی آمرانہ روش کی سخت تنقید کی جارہی ہے۔ یورپ اور امریکہ کا میڈیا بھی مودی حکومت کے ذریعہ جمہوری اقدار، انسانی حقوق، شہری آزادی اور آزادی اظہار رائے کی بیخ کنی پر مسلسل تنقید کررہا ہے۔دی اکنامسٹ کے ڈیموکریسی انڈیکس میں ہندوستان کو’’ ناقص جمہوریت‘‘ کا خطاب دیا گیا۔لبرل ڈیموکریسی انڈیکس میں ہندوستان کی پوزیشن گزشتہ ایک سال میں اور زیادہ خراب ہوگئی اور اب وہ ۱۰۸؍ ویں نمبر پر ہے یعنی تنزانیہ، نائیجیریا اور بولیویا جیسے ممالک سے بھی نیچے۔نیویارک ٹائمز، دی اکنامسٹ، دی ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، وال اسٹریٹ جرنل، بی بی سی،الجزیرہ جیسے معتبر ذرائع ابلاغ مودی جی پرملک میں آمریت نافذ کرنے کا الزام لگارہے ہیں اورآکسفورڈ پریس جیسے اشاعتی ادارےTo Kill a Democracy: India`s Passage to Despotismجیسی کتابیں شائع کررہے ہیں۔راہل گاندھی کو گجرات کی عدالت سے دو سال کی قید کی سزا سنائے جانے اور ان کی لوک سبھا کی رکنیت کی منسوخی کا بھی اقوام عالم نے سخت نوٹس لیا ہے۔ جرمن وزارت خارجہ اورامریکی انتظامیہ نے نئی دہلی کو آگاہ کردیا ہے کہ راہل کے معاملے میں’’عدالتی نظام کی آزادی اور بنیادی جمہوری اصول و ضوابط‘‘کے اعلیٰ معیارکی خلاف ورزی ان کیلئے قابل قبول نہیں ہوگی۔مغربی میڈیا کو شک ہے کہ راہل کی سزا اور نااہلی مودی اور اڈانی کے رشتوں پر مسلسل سوال کرنے کی وجہ سے کی گئی انتقامی کارروائی ہے۔ہندوستان کی جمہوریت پر منڈلاتے خطروں کے سبب جب مودی حکومت پر بین الاقوامی تنقیدوں میں اضافہ ہونے لگا تومودی جی نے بھارت کو’’ مدر آف ڈیموکریسی‘‘کہنا شروع کردیا۔ ان کے پاس بین الاقوامی اداروں اور مغربی میڈیا کے اس الزام کا جواب دینے کے لئے کہ ان کے دور اقتدار میں جمہوریت کمزور ہوئی ہے اور مطلق العنانی بڑھی ہے،نہ کوئی دلیل ہے اور نہ ہی کوئی ثبوت۔ اس لئے ان کا منہ بند کرنے کے لئے یہ ترکیب ڈھونڈ نکالی گئی۔بار بار ہندوستان کو جمہوریت کی جنم بھومی قرار دے کر وزیر اعظم بالواسطہ طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انہیں غیر ملکیوں سے جمہوریت کا سبق پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارا مادر وطن ہی در اصل مادر جمہوریت ہے۔
تین سال قبل ایل اے سی پر چینی جارحیت اور دو ہزار مر بع کلو میٹر کے ہندوستانی علاقے پرچینی فوج کے مبینہ قبضے پر جب ریٹائرڈ فوجی افسروں، دفاعی ماہرین اور کانگریس لیڈر وں نے حکومت سے وضاحت طلب کی تو مودی جی، راج ناتھ سنگھ اور امیت شاہ کا جواب تھا ہماری ایک انچ زمین پر بھی کوئی قبضہ نہیں کرسکتا ہے۔غور طلب ہے کہ دو ہزار مربع کلو میٹر زمین ہتھیائے جانے کے الزام کی کسی نے کوئی ٹھوس اور واضح تردید نہیں کی۔
مودی جی نے حالیہ جمہوریت کانفرنس میں ہندوستان کے ایک توانا جمہوری ملک ہونے کا اپنی دانست میں ایک اور بہت بڑا ثبوت دنیا کے سامنے رکھا۔’’ متعدد عالمی چیلنجز کے باوجود ہندوستان آج ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت ہے اوریہ حقیقت بذات خود جمہوریت کی موجودگی کا بہترین اشتہار ہے۔‘‘یہ بھی ایک گمراہ کن دلیل ہے۔ جب بھی ہندوستان میں تیزی سے بڑھتی مذہبی منافرت، فرقہ وارانہ تشدد او اور سیکولرزم کی پامالی پر تنقید کی جاتی ہے تو بی جے پی اور ہندوتوا کے علم بردار یہ جواب دیتے ہیں کہ وہ ’’واسودھیوا کٹمبکم‘‘ یعنی’’ساری دنیا ایک کنبہ ہے‘‘ کے فلسفے میں یقین رکھتے ہیں۔وہ تنگ نظری، فرقہ پرستی اور مذہبی تعصب کے الزامات کی تردید نہیں کرتے ہیں۔ جو کھلے عام قتل عام کی دھمکی دیتے ہیں وہ بھلا ان الزامات کی تردید کیسے کریں گے؟ ’’ساری دنیا ایک کنبہ بھی ہے۔‘‘ ۹؍سال سے اپنے بدیسی دوروں کے موقع پر کی گئی اپنی ہر تقریر میں مودی جی بھی اس سنسکرت ضرب المثل کو دہرانا ضروری سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب ملک کی زمینی حقیقت کیا ہے یہ سب کو پتہ ہے۔ ساری دنیا کو ایک کنبہ سمجھنے والے اپنے ہی پڑوسیوں کے ساتھ کیسا سلوک کررہے ہیں یہ رام نومی کے موقع پر دنیا نے ایک بار پھر دیکھ لیا۔