کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی پد یاترا آخری پڑاؤ ہے جو 26 جنوری کو سری نگر جاکر ختم ہوگی اس یاترا کا میڈیا میں تذکرہ ہونے لگا ہے مگر اب غیر ملکی میڈیا نے بھی کانگریس کی اس پد یاترا میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ راہل کے دورے کو غیر ملکی میڈیا میں کس طرح دیکھا جا رہا ہے۔اور اس کا زاویہ نظر کیا ہے ؟بی بی سی ہندی نے تفصیل کے ساتھ رپورٹ شایع کی ہے ذیل میں خلاصہ پیش خدمت ہے
*جرمن نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو نے کیا لکھا ہے؟
جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو (ڈوئچے ویلے) نے گزشتہ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ کانگریس پارٹی اس یاترا کے ذریعے مہنگائی، بے روزگاری اور فرقہ وارانہ پولرائزیشن جیسے مسائل کو اٹھا کر نہ صرف اپنی کھوئی ہوئی سیاسی طاقت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے، بلکہ راہل کو ایک بڑے لیڈر کے طور پر بھی قائم کرنا چاہتی ہے۔ ہندو قوم پرستی کانگریس پارٹی کے بھارت کے تکثیری خیال کے لیے ایک اہم چیلنج ہے۔
* نیویارک ٹائمز نے کیا لکھا ہے؟
دنیا کے انتہائی باوقار نیویارک ٹائمز میں سمیر یاسر لکھتے ہیں، ’’عام انتخابات میں صرف 16 ماہ باقی رہ گئے ہیں، راہل گاندھی کا سفر پی ایم مودی کی قیادت میں ہندوستان کی منقسم اپوزیشن بی جے پی کے لیے ایک دور کا تعین کرنے والا واقعہ بن جائے گا۔‘‘ ۔بھارت میں کثیر الجماعتی جمہوریت کا مستقبل معلق ہوگیا ہے۔ بھارت کے سب سے طاقتور لیڈروں میں سے ایک نریندر مودی نے بھارت کی سیکولر بنیاد کو نئی شکل دی ہے جو ہندو معاشرے کی حمایت کرتی ہے اور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتی برادریوں کو پسماندہ کرتی ہے۔ انڈیانا یونیورسٹی میں سیاسیات پڑھانے والے پروفیسر سمیت گنگولی نے NYT کو بتایا کہ "یہ راہل گاندھی کی آخری کوشش ہے۔ پارٹی کی قسمت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنی قومی شبیہ کو مضبوط کرنے کی کوششیں۔ لیکن تمام تر شور شرابے کے باوجود وہ ہندوستان کا ایک الگ اور واضح خیال پیش کرنے میں ناکام رہے،”
*برٹش اخبار گارڈین نے کیا لکھا
لندن اسکول آف اکنامکس میں پروفیسر مدھولیکا بنرجی کا ایک مضمون برطانیہ کے موقر اخبار دی گارڈین میں شائع ہوا ہے۔ وہ اس سفر کے ساتھ گئی تھیں۔اخبار لکھتا ہے، ‘یہ پوری مہم کسی غیر متشدد فوج کی بہت بڑی فوجی مہم کی طرح تھی۔ مختلف لسانی برادریوں اور پس منظر کے لوگوں کو مارچ میں شامل ہوتے دیکھنا دلچسپ تھا۔
یہ ایک منی انڈیا مارچ جیسا تھا۔ ہم جانتے تھے کہ یہ ہندوستان موجود ہے، لیکن اس کا تجربہ بہت کم ہے۔ پچھلی میٹنگوں کی طرح، میں نے راہل گاندھی کو اس مارچ میں چلتے ہوئے بھی ایک بہت ہی شائستہ اور تیز دماغ شخص پایا ہے۔