حیدرآباد۔چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے اپنی دختر کے کویتا کو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا بی جے پی، کی جانب سے دباؤ بنانے کا اعلان کرتے ہوئے ٹی آر ایس اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے۔ جس پر ٹی آر ایس قائدین حیرت کا اظہار کررہے ہیں۔ بی جے پی کی ان سازشوں کو بے نقاب کرتے ہوئے چیف منسٹر کے سی آر نے بی جے پی کے خلاف آر پار کی لڑائی لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمنٹ اور ارکان قانون ساز کونسل کو چوکنا رہنے کی ہدایت دی ہے۔ ساتھ ہی پارٹی میں بغاوت اور اختلافات کو دبانے کے لئے پارٹی کے تمام موجودہ ارکان اسمبلی کو ٹکٹ دینے اور وسط مدتی انتخابات نہ کرانے کا اعلان کرتے ہوئے ارکان اسمبلی میں ٹکٹ سے محروم ہونے کا جو خوف تھا اس کو دور کردیا ہے۔ مگر ساتھ ہی شہر کے علاوہ ریاست کے مختلف اضلاع میں پارٹی ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرنے والے سابق وزرا، سابق ارکان اسمبلی، سابق ارکان قانون ساز کونسل اور کارپوریشن کے مختلف صدورنشین کو مایوس کردیا ہے۔ پرشانت کشور کی ٹیم نے جو رپورٹ پیش کی تھی اس میں 30 ارکان اسمبلی کی کارکردگی سے عوام مطمئن نہ ہونے کا چیف منسٹر کے سی آر کو حوالہ دیتے ہوئے تفصیلات سے واقف کرایا گیا تھا جس کے بعد ٹی آر ایس کے حلقوں میں سیاسی بھونچال پیدا ہوگیا تھا۔ ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی میں یہ بحث شروع ہوگئی تھی کہ وہ کونسے 30 ارکان اسمبلی ہیں جن کے سرپر تلوار لٹک رہی ہے۔ موجودہ ارکان اسمبلی اپنے مستقبل کو لے کر فکر مند تھے۔ دوبارہ اسمبلی میں رسائی کے لئے کانگریس اور بی جے پی سے رابطہ میں بھی تھے تاکہ ٹی آر ایس سے انہیں ٹکٹ نہ ملنے پر وہ ان جماعتوں سے ٹکٹ حاصل کرسکیں۔ دوسری جانب سابق وزرا اور سابق ارکان اسمبلی اور دوسرے قائدین ٹکٹ کی دوڑ میں شامل ہوتے ہوئے مختلف اسمبلی حلقوں میں اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کرچکے تھے۔ تاہم چیف منسٹر کی جانب سے تمام موجودہ ارکان اسمبلی کو دوبارہ ٹکٹ دینے کے اعلان کے بعد ٹکٹ کے دعویدار اور دوسرے قائدین مایوس ہوگئے ہیں اور اپنے سیاسی مستقبل کو لے کر فکر مند ہوگئے ہیں اور دوسری جماعتوں سے قسمت آزمانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ٹی آر ایس کی رکن قانون ساز کونسل و چیف منسٹر کی دختر کے کویتا سے کیا بی جے پی کی جانب سے حقیقت میں رابطہ پیدا کیا گیا تھا؟ اور انہیں بی جے پی میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی؟ اس پر بھی سیاسی حلقوں میں بحث چل رہی ہے۔ کیا یہ ٹی آر ایس کے ارکان اسمبلی کو انتباہ دینے کی حکمت عملی کا حصہ ہے؟ یا بی جے پی کو بدنام کرنے کے لئے نیا شوشہ چھوڑا گیا ہے؟ ٹی آر ایس نے چار ارکان اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کا بھانڈا پھوڑ دیا تھا اور سارے معاملے کی تحقیقات کے لئے ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی ہے اور سارے ملک میں بی جے پی کو بدنام کرنے کے لئے فارم ہاوز معاملہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا اور اس کو قومی مسئلہ بھی بنایا تھا۔ کویتا کے معاملے میں ٹی آر ایس اور خود کویتا کیوں خاموش ہیں؟ اس پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے کہا کہ آئندہ 10 ماہ ٹی آر ایس کے لئے سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے اور ٹی آر ایس 95 اسمبلی حلقوں پر کامیاب ہوگی۔ چیف منسٹر کے اعلان میں ہی یہ اعتراف ہیکہ ٹی آر ایس کو 10 اسمبلی حلقوں کا نقصان ہوگا، کیونکہ ریاست میں ٹی آر ایس ارکان اسمبلی کی تعداد 105 ہے اس سے اندازہ ہو رہا ہیکہ ٹی آر ایس حکومت کے خلاف تلنگانہ میں لہر چل رہی ہے۔ اس لہر میں اضافہ ہوگا یا کمی ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ چیف منسٹر کے سی آر کو پارٹی کی طاقت اور کمزوریوں کا اندازہ ہے اس لئے انہوں نے علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل پانے کے بعد پہلی مرتبہ تنہا مقابلہ کرنے کے بجائے کمیونسٹ جماعتوں سے اتحاد کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کا اشارہ دیا ہے اور کمیونسٹ جماعتیں بھی حکمران ٹی آر ایس کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے تیار رہنے کا اشارہ دیا ہے۔ دونوں کمیونسٹ جماعتوں نے منوگوڑ کے ضمنی انتخاب میں ٹی آر ایس کی تائید کی تھی۔ چیف منسٹر کے سی آر نے پارٹی ارکان اسمبلی کو ہدایت دی کہ وہ جن اسمبلی حلقوں میں ٹی آر ایس کا اثر و رسوخ ہے وہاں کمیونسٹ جماعتوں کے مقامی قائدین کے ساتھ مل کر کام کریں۔