حیدرآباد -تلنگانہ کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ نے حضور نظام نواب میر عثمان علی خان بہادر کو رعایا پرور حکمران قرار دیا، جنہوں نے ہمیشہ ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنی دو آنکھوں سے تعبیر کیا تھا۔ وہ انسانیت نواز اور ویژن رکھنے والی شخصیت تھے۔ برقی نظام، ریڈیو اسٹیشن، آبپاشی پراجکٹس کی تعمیر، صنعتوں کے قیام، ایئرپورٹ، ریلویز، آر ٹی سی، سڑکوں کا بہتر نظام تیار کرتے ہوئے دنیا کے نقشہ میں حیدرآباد کی منفرد پہچان بنائی تھی۔ میر عثمان علی خان سیکولر عوام دوست انسان تھے۔ تاہم فرقہ پرست، موقع پرست طاقتیں اور متعصب مورخین نے حضور نظام کو ایک منظم سازش کے تحت فرقہ پرست اور ظالم حکمران کی طرح پیش کیا ہے جس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ تلنگانہ کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ کے ذمہ داروں کیپٹن پانڈورنگار ریڈی ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر اے ستیہ نارائنا، وشنو سوروپ ریڈی اور ٹی ویویک نے روزنامہ سیاست اور سیاست ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ریاست حیدرآباد اور تلنگانہ کی ایک خوبصورت تاریخ ہے۔ حیدرآباد اور تلنگانہ نے ملک کو جو کچھ دیا ہے وہ کسی اور شاہی حکمرانوں، راجہ رجواڑوں نے نہیں دیا ہے۔ پھر بھی حضور نظام اور حیدرآباد کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کیپٹن پانڈورنگاریڈی نے کہا کہ حضور نظام کے سیکولر اور عوام دوست حکمران ہونے کے کئی ثبوت ہیں۔ انہوں نے کئی غیر مسلم طلبہ کو اسکالرشپس فراہم کئے، اعلیٰ تعلیم حاصل کے لئے بیرونی ممالک روانہ کیا، ایسے طلبہ میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو بھی شامل ہیں۔ حضور نظام غیر معمولی بصیرت کے حامل حکمران تھے جنہوں نے حیدرآباد دکن کو ترقی دلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اُس زمانے میں حیدرآباد میں زیر زمین ڈرینیج نظام تعمیر کیا گیا تا جو کسی کارنامہ سے کم نہیں تھا۔ جمہوریت کا سورج طلوع ہونے سے قبل دنیا کے چنندہ اور عصری سہولیات سے لیس شہروں میں حیدرآباد کا شمار ہوتا تھا۔
حضور نظام نے حیدرآباد کے علاوہ اضلاع میں بڑے پیمانے پر صنعتوں کا جال پھیلاتے ہوئے روزگار کے مواقع فراہم کئے تھے۔ شہر حیدرآباد کے علاوہ مختلف اضلاع میں آبپاشی پراجکٹس تعمیر کرتے ہوئے پینے کے ساتھ کاشتکاری کیلئے پانی مہیا کیا تھا۔ اُس زمانہ میں حیدرآباد ملک کی تمام دیسی ریاستوں میں ترقی اور خوشحالی کے لحاظ سے سرفہرست تھا۔ ڈاکٹر اے ستیہ نارائنا نے کہا کہ ایسے وقت جب ہندوستان کی تقریباً دیہی ریاستیں تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھیں اس وقت حیدرآباد میں برقی کا معقول انتظام تھا۔ ملک کے پہلے ہائیڈروالیکٹرک پراجکٹ کے معاملے میں بھی حیدرآباد کا نام آتا ہے۔ 1965 میں حضور نظام نے اقتدار سے محرومی کے باوجود مادر وطن کیلئے 5 ٹن سونا بطور عطیہ پیش کیا۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ فرقہ پرست طاقتیں اور متعصب و تنگ نظر مورخین نے حضور نظام کو ایک منظم سازش کے تحت بدنام کہا جبکہ حقیقت یہ ہیکہ وہ نہ تو فرقہ پرست تھے اور ناہی ملک دشمن تھے، وہ عوام دوست اور محب وطن حکمران تھے۔ حضور نظام کو بدنام کرنے میں فرقہ پرست طاقتوں بالخصوص آندھرائی مورخین نے اہم رول ادا کیا۔ وشنوسوروپ ریڈی نے بتایا کہ حضور نظام نے اراضی سروے کا جو آغاز کیا تھا اس پر آج تک ملک بھر میں عمل آوری ہو رہی ہے۔ ان کی ریاست میں کتنی اراضی ہے، کتنے درخت ہیں، کتنی نہریں ہیں، کتنے تالاب ہیں اس کے علاوہ دوسری چیزوں کا پکا حساب کتاب تھا۔ اراضی سروے کی تلنگانہ میں تلگو زبان میں میاپ، مہاراشٹرا میں مراٹھی زبان میں میاپ اور کرناٹک میں کنڑ زبان میں بھی میاپ تیار کیا گیا تھا۔ تلنگانہ کی تاریخ پر دوبارہ ریسرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ حضور نظام نے اپنے دور حکومت میں صحت عامہ پر خاص توجہ دی۔ دیہی سطح سے عثمانیہ ہاسپٹل تک طبی سہولتوں کا معقول انتظام کیا۔ یونانی، آیورویدک اور ایلوپتھی میڈیسن کو خاص اہمیت دی۔ حضور نظام کشادہ ذہن کے مالک تھے اور وہ اختراعی اقدامات کو بہت پسند کرتے تھے۔ حضور نظام پر بتکماں تہوار کے دوران خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے کے جو الزامات ہیں وہ سب بکواس ہیں۔ اُس وقت کسی بھی اخبار میں اس کی ایک بھی خبر شائع نہیں ہوئی۔ حضور نظام کو بدنام کرنے کی سازش کے تحت یہ سب سیاسی کھیل کھیلا گیا۔ ٹی ویویک نے کہا تھا کہ یہ بات بھی غلط ہیکہ تلگو زبان کو کچل دیا گیا۔ ہاں اردو کو اہمیت دی گئی۔ بعض اوقات تلگو سے امتیاز کیا گیا مگر تلگو زبان کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ تلگو زبان میں چلائے جانے والے تلگو مدارس کو حضور نظام نے مالی امداد دی تھی۔ یہ بھی آندھرائی عوام کے لگائے گئے الزامات ہیں جبکہ مہاراشٹرا اور کرناٹک میں بھی حضور نظام کی حکمرانی تھی مگر ان دونوں ریاستوں کے عوام نے کبھی مراٹھی اور کنڑ سے ناانصافی کرنے کا حضور نظام پر کوئی الزام عائد نہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی میں سنسکرت اور تلگو کے علیحدہ علیحدہ شعبے ہیں۔ حقیقت یہ ہیکہ اُس وقت 48 فیصد آبادی تلگو داں تھی مگر صرف 6 فیصد لوگ ہی تلگو جانتے تھے۔ تلگوداں افراد خود اردو کو ترجیح دیتے تھے۔ موجودہ حکمرانوں نے سوائے پولیس اسٹیشن کی عمارتوں کے کچھ تعمیر نہیں کیا اور نہ ہی کچھ نیا کرنے کی کوشش کی ہے.