روس سپر پاور رہ چکا ہےجبکہ یوکرین کا رقبہ، آبادی، معاشی قوت، حربی طاقت اور جنگ میں ڈٹے رہنے کی صلاحیت کا روس سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ جس طرح بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو بآسانی نگل لیتی ہے اسی طرح کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ روس، یوکرین کو بآسانی شکست دے دے گا۔ دُنیا میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ بڑی طاقتوں نے چھوٹی طاقتوں کو ہمیشہ ہڑپ لینے کی کوشش کی اور کامیاب رہیں مگر یوکرین اس تاریخ کو بدلنے کیلئے کوشاں ہے۔ اس کی پہلی فتح تو یہی ہے کہ اتنی بڑی طاقت سے گزشتہ ۱۴؍ دن سے اس طرح لڑ رہا ہے جیسے اسے اچانک بہت بڑا اسلحہ جاتی ذخیرہ مل گیا ہو یا اس کے فوجیوں کی تعدادمیں یکلخت اضافہ ہوگیا ہو۔ وہ ملک جس نے اپنے شہریوں سے جنگ میں مدد کی اپیل کی ہے، اُس کا اپنے مدمقابل کے سامنے ڈٹا رہنا ہی بہت بڑی بات ہے۔ روس کی طاقت اور یوکرین کی طاقت کے پیش نظر ایک عام انسان بھی کہے گا کہ یوکرین کو زیر کرنے کیلئے ایک دن بھی کافی ہے مگر اب تک چودہ دن گزر چکے ہیں اور کہا نہیں جاسکتا کہ یوکرین کی مزاحمت کب تک جاری رہے۔ یہ اس کی بڑی کامیابی ہے۔
دوسری بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے عالمی رائے عامہ اپنے حق میں کرلی ہے۔ دُنیا کے بیشتر ملک اور وہاں کے عوام اِس وقت یوکرین کے ساتھ ہیں، روس کے ساتھ نہیں ہیں۔ اس کا سبب امریکہ کا یوکرین کے قرار دیا جاسکتا ہے مگر یہی ایک سبب نہیں ہے۔ دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ دُنیا جنگ و جدل کے نتائج دیکھ چکی ہے۔ اس لئے کسی بھی ملک کے عوام جنگ کی حمایت نہیں کرسکتے بالخصوص ایسے وقت میں جبکہ متصادم قوتوں میں سے ایک نیوکلیائی طاقت ہو اور جس نے خطرناک نتائج کی دھمکی بھی دے رکھی ہو۔ یوکرین کے حق میں عالمی رائے عامہ کی ایک اور وجہ ہے۔ جنگ کسی ایک خطے میں ہوتی ہے مگر دُنیا ک کوئی خطہ اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رہتا، خواہ وہ معیشت کے متاثر ہونے کی شکل میں ہو یا ماحولیاتی تباہی کی صورت۔ اسلئے کسی بھی ملک کے عوام جنگ کے حامی نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ روس رُسوا ہورہا ہے اور یوکرین کے حوصلے کی ستائش کی جارہی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روس نواز حصوں کو چھوڑ کر یوکرین کے تمام شہری اپنی حکومت کے ساتھ ہیں جبکہ روس میں ایسا نہیں ہے۔ خبروں پر پابندی نہ ہو تو دُنیا دیکھ لے کہ روسی شہریوں کی بڑی تعداد پوتن کے فیصلے کی مخالف ہے۔ پوتن نے سڑکوں، بالخصوص مظاہرہ گاہوں پر فساد شکن پولیس تعینات کردی ہے تاکہ مظاہرہ نہ ہوسکے۔ جس دن (۲۴؍ فروری) کو یوکرین پر حملہ ہوا، اُسی دن سے پولیس کے جوانوں نے عوامی مقامات پر پہرہ سخت کررکھا ہے۔ ماسکو میں پشکن اسکوائر مظاہروں کیلئے مشہور ہے۔ یہاں بھی سخت پہرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود پوتن جانتے ہیں کہ اُن کے عو ام اس زور زبردستی کی تائید نہیں کریں گے۔ بعض اطلاعات کے مطابق روس کے ٹی وی چینل محاذ جنگ سے موصولہ خبروں کو ایک خاص زاویئے ہی سے پیش کررہے ہیں تاکہ عوام میں اشتعال نہ پھیلے۔’’دی نیویارکر‘‘ کی ایک خبر کے مطابق ویب سائٹس کیلئے’’غیر متعلق‘‘ ہونے کا اعلان ضروری قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ پیش کی جانے والی خبروں کو غیر ملکی ایجنسیوں کی فراہم کردہ خبریں بتایا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اگر روس سپرپاور ہے تو اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟ اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یوکرین جنگ جیت بھی سکتا ہے۔ جیت کی شکل مختلف ہوسکتی ہے۔