آسٹریلیائی کرکٹ لیجنڈ شین ورن نہیں رہے ۔ انہیں تھائی لینڈ کے کوہ ساموئی کے ایک ریزارٹ میں دل کا دورہ پڑا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر ۵۲؍سال تھی۔ اطلاع کے مطابق مشتبہ طور پر ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی ہے۔ ان کی موت کی خبر دنیائے کھیل میں قہر بن کر ٹوٹی کیوں کہ شین ورن کافی چاق و چوبند اور چست درست تھے۔ وہ کسی بڑے عارضے میں بھی مبتلا نہیں تھے ۔ ان کے انتقال سے سبھی ششدر رہ گئے ہیں۔ان کے مداحوں میں غم کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں ان کے مداح موجود ہیں انہوں نے ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا پر شین ورن کو خراج عقیدت بھی پیش کرنا شروع کردیا ہے۔
ورن کی میڈیا ٹیم نے ان کے انتقال پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کی موت کی تصدیق کی اور کہا کہ طبی عملے کی بہترین کوششوں کے باوجود ان کی سانسیں بحال نہیں کی جاسکیں۔میڈیا ٹیم کے مطابق ان کی فیملی نے اس موقع پر ’پرائیویسی ‘ کی اپیل کی ہے اس لئے ہم شین ورن کے تعلق سے مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کرسکیں گے ۔
شین ورن یقیناً اب تک کے عظیم ترین گیندبازوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے اسپن بالنگ میں نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ورن نے نہ صرف پچ پر زبردست اسپن پیدا کیا بلکہ وہ ناقابل یقین حد تک گیند کو ٹرن کرانے میں ماہر تھے۔ کہا جاتاتھا کہ اگر انہیں گلاس(کانچ)کی پچ پر بھی گیند بازی کرنے کو کہا جائے تو وہ اس پر بھی گیند کو ۷۰؍ سے ۸۰؍ ڈگری تک ٹرن کراسکتے ہیں۔ شین ورن کی اہمیت اس لئے بھی بہت زیادہ ہے کہ وہ ایک ایسے ملک سے تعلق رکھتے تھے جہاں پر تیز گیند بازی کی روایت رہی ہے اور وہاں سے انہوں نے اسپن گیند باز ی میں نہ صرف اپنا لوہا منوایا بلکہ اسپنروں کی جنت کہلانے والے برصغیر کے ملکوں کے بہترین اسپنروں سے بھی زیادہ بہتر گیند بازی کی ۔ ورن نے۱۹۹۲ءسے۲۰۰۷ء کے درمیان۱۴۵؍ ٹیسٹ اور۱۹۴؍ ون ڈے میچ کھیلے اور اپنے شاندار بین الاقوامی کریئر کے دوران مجموعی طور پر ایک ہزار ایک وکٹیں حاصل کیں۔ ویسے تو ان کی کئی گیندیں یادگار کے زمرے میں شامل ہیں لیکن ۱۹۹۱ء میں ایشز ٹیسٹ کے دوران ان کی مائک گیٹنگ کو ڈالی گئی گیند ’ بال آف دی سنچری ‘ قرار دی جاتی ہے۔ سچن تینڈولکر کے ساتھ ان کی حریفائی بھی یادگار ہے۔ انہوں نے سچن کو کئی موقعوں پر آئوٹ بھی کیا لیکن سچن نے بھی ان کی کئی گیندوں کی زبردست دھنائی کی تھی ۔