اس کالم کے پڑھتے وقت اتر پردیش میں چوتھے راؤنڈ کی پولنگ شروع ہو چکی ہوگی۔ پچھلے تین راؤنڈ میں بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا رہا اور باقی راؤنڈ میں بھی حالات بہتر ہوتے نہیں نظر آ رہے ہیں۔ دراصل یوپی میں بی جے پی کے خلاف صرف ایک لہر ہی نہیں بلکہ ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ حالات اس قدر سنگین ہیں کہ پارٹی کے امیدوار اسٹیج پر کھڑے ہو کر کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک لگا رہے ہیں۔ صورت حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ اب وزیر اعظم نریندر مودی چار دنوں تک کاشی میں رک کر بی جے پی کے چناوی حالات بہتر کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اب دیر ہو چکی ہے۔ عوام بی جے پی کے خلاف کھڑے ہو چکے ہیں۔ اب مودی-یوگی کسی کا جادو نہیں چل رہا ہے۔
لیکن وہ اتر پردیش جو سنہ 2014 سے سنہ 2019 تک ہر چناؤ میں مودی کے کہنے پر بی جے پی کو ووٹ دے رہا تھا، وہ اب بی جے پی کے خلاف بغاوت پر آمادہ کیوں ہے! اس کا راز یہ ہے کہ اتر پردیش کی عوام کی آنکھوں سے ہندوتوا کی مسلم منافرت کا چشمہ اتر چکا ہے۔ ان کا مذہب کا نشہ ہرن ہو چکا ہے۔ اب ان کو سمجھ میں آ رہا ہے کہ ان پر جو مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹا ہے اس کی ذمہ دار بی جے پی ہے۔ اب یوپی کے کسان کو سمجھ میں آ رہا ہے کہ مودی حکومت کسانی قانون کے ذریعہ اس کی زمین چھین کر امبانی-اڈانی کو دینے کی گھات میں ہے۔ کروڑوں نوجوان جو بغیر روزگار کے گھوم رہے ہیں، ان کو یہ سمجھ میں آ رہا ہے کہ ان کی بے روزگاری کا ذمہ بھی یوگی-مودی پر ہے۔ وہ لاکھوں لوگ جو کووڈ میں یوپی میں مر گئے ان کے لیے حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ بس مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر پیدا کی جاتی رہی جس کا آخر سب سے زیادہ نقصان خود ہندو عوام کو ہوا۔ آخر پیٹ کی آگ اتنی تیز ہوئی کہ غریب ہندو عوام کی آنکھیں کھل گئیں اور اس کے دماغ سے ہندوتوا سیاست کا اور مسلم منافرت کا بھوت اتر گیا۔ اب وہ اپنے مسائل سمجھ کر بی جے پی کے خلاف ووٹ کر رہا ہے۔ اور اتر پردیش کے باقی راؤنڈ پولنگ کے طرز میں تبدیلی کے امکان ممکن نہیں۔ اس لیے اب یوپی بی جے پی کے ہاتھوں سے نکلا ہی سمجھیے۔