کرناٹک میں حجاب تنازع کے بیچ پیرکو شموگہ میں بجرنگ دل کے ایک کارکن کے قتل کو بہانہ بنا کر بھگوا عناصر سرگرم ہوگئے۔ انہوں نے اقلیتوں کے علاقوں میں توڑ پھوڑ مچائی اور کئی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا نیز پتھراؤ کرکے لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی۔ دوسری جانب پولیس نے ۲۶؍ سالہ بجرنگ دل کارکن ہرش کے قتل کے الزام میں ۳؍افرا دکو گرفتار کرلیا ہے۔ علاقے میں حکم امتناعی نافذ کر دیا گیا ہے اور اسکولوں اور کالجوں میں تعطیل کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
ریاستی وزیر کی شرانگیزی اس معاملے میں ریاستی وزیر برائے پنچایتی راج نے بھی شرانگیزی کا مظاہرہ کیا اور اس بات کی تصدیق کے بغیر ہی کہ ٹیلر کے طور پر کام کرنے والے ہرش کا قتل کس نے کیا ہے،اس کا الزام ’’مسلم غنڈوں‘‘ پر عائد کردیا۔اتناہی نہیں کے ایس ایشورپّا نے اس معاملے کو حجاب سے بھی جوڑنے کی کوشش کی اور کہا کہ ’’ہم مسلمانوں کو ریاست میں غنڈہ گردی کی اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘دوسری جانب وزیر داخلہ نے واضح کیا ہے کہ قتل کا حجاب تنازع سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مقتول جو ٹیلر کے طور پر کام کرتاتھا کے تعلق سے بتایا جارہاہے کہ وہ مجرمانہ ماضی کا حامل تھا۔ پولیس کو شبہ ہے کہ اس کا یہی ماضی اس کے قتل کا سبب بنا ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس قتل سے خبر لکھے جانے تک مسلمانوں کا کوئی تعلق ظاہر نہیں ہوا ہے تاہم آخری رسومات کے جلوس کے بعد مسلم محلوں کو نشانہ بنایاگیا۔
اقلیتی علاقوں کو نشانہ بنایاگیا.بجرنگ دل کے کارکن کے قتل کے بعد زبردست کشیدگی کے بیچ مختلف مقامات پر آتشزنی، پتھراؤ اور توڑ پھوڑ کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ مقتول کی آخری رسوم کے دوران ضلع میں کئی جگہوں پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی اطلاعات ہیں۔ قتل کے الزام میں تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ کرناٹک کے وزیر داخلہ اراگا گیانندر نےاس قتل کے پیچھے کسی تنظیم کے ملوث ہونے کی اطلاع سے انکار کیا ہے، تاہم شموگہ سے تعلق رکھنے والےریاستی وزیرکے ایس ایشورپا نے اس پورے معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے انتہائی قابل اعتراض بیان دیا ہے۔ ایشورپا نےکہاہے کہ بجرنگ دل کے کارکن ہرش ہندوکا قتل ’مسلم غنڈوں ‘ نے کیا ہے اور ریاست میں غنڈہ گردی نہیں چلنے دی جائے گی۔
کانگریس کو بھی معاملے میں گھسیٹنے کی کوشش ایشورپا نے کرناٹک کانگریس کے صدر ڈی کے شیو کمار پر بھی الزامات عائد کئےہیں۔ ہرش کے قتل کو حجاب تنازع سے جوڑنے کی کوششوں کے بیچ پولیس کی تفتیش میں پتہ چلا ہے کہ مقتول مارپیٹ اور اقدام قتل کے کم از کم ۵؍ معاملوں میں ملوث تھا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف فرقہ وارانہ حملوں کے واقعات میں بھی ملوث رہ چکاہے۔ یہ بھی اطلاع ہے کہ بجرنگ دل کا یہ کارکن شموگہ ضلع میںدسمبر ۲۰۲۰ء میں مسلم تاجروں پر حملہ کرنے والے ہجوم کا بھی حصہ تھا۔
اضافی پولیس فورس تعینات ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ایس مورگن کو شموگہ ضلع میں صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے بھیج دیا گیاہے۔ مورگن نے بتایا کہ بجرنگ دل کارکن کے قتل میں ملوث ۳؍ افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ دیگر کی گرفتاری کیلئے پولیس کی ۴؍ ٹیمیں روانہ کی گئی ہیں۔اس واقعہ پر کرناٹک کے وزیر داخلہ اراگا گیانندرا نے کہاہے کہ ’’مذکورہ نوجوان کوچار پانچ نوجوانوں کے ایک گروپ نے قتل کیا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس قتل کے پیچھے کسی تنظیم کا ہاتھ ہے۔ فی الحال شموگہ میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے احتیاطی اقدام کے طور پر شہر کے تمام اسکول اور کالج دو دن کے لیے بند کردیئے گئے ہیں۔‘‘
بجرنگ دل کے کارکنوں کی شر انگیزی واقعےکے بعد بجرنگ دل کے کارکن شموگہ میں پرتشدد مظاہرے کررہے ہیں حالانکہ ریاست میں حکم امتناعی نافذ کردیاگیاہے۔ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے پولیس کواحکامات جاری کیے گئے ہیں۔بجرنگ دل کے کارکن کے قتل کو ایک بڑا موضوع بناتے ہوئے شرپسندوں نے وزیر اعلیٰ بسو راج بومئی کو خط لکھ کر اس کی جانچ این آئی اے سےکرانے کا مطالبہ کیا ہے۔