چند ہفتے قبل اسی ہفتہ واری کالم میں کرناٹک کے اندر حجاب پر اٹھنے والے سوالات کے سلسلہ میں یہ بات کہی گئی تھی کہ اسلاموفوبیا کا مرض ہندوستان کی سر زمین سے پیدا نہیں ہوا ہے بلکہ یہ مغربی ممالک سے در آمد شدہ نظریہ کے طفیل میں پروان چڑھا ہے۔ ہندوستان تو ہمیشہ اپنی رنگارنگی تہذیبی و ثقافتی تنوع کے لیے معروف رہا ہے اور آج بھی اس ملک کے باشندوں پر ’’کثرت میں وحدت‘‘ کا رنگ ہی غالب ہے۔ اس معاملہ پر چونکہ بڑی سنجیدہ گفتگو ہو چکی ہے اور مزید جاری ہے، اس لیے عام قاری کے ذہن و دماغ کو مزید بوجھل کرنے کے بجائے آج مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنی تہذیبی رنگا رنگی اور مذہبی رواداری کی مثال بالی ووڈ سے پیش کریں۔ فلمیں چونکہ ہر سطح پر اور ہر عمر کے لوگ دیکھتے ہیں، اس لیے سمجھنا آسان بھی ہوگا۔ آرٹ اور فلم ہمارے سماج کی تشکیل میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں اور خاص طور سے بالی ووڈ نے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے کلچر پر اپنا اثر ڈالا ہے۔ بے شمار ہندی فلموں نے ہندوستان کے لسانی، تہذیبی، مذہبی اور ثقافتی تنوع کو پیش کرکے فلم بینی کے شوقین لوگوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم ہندوستانی اپنے لباس، اپنی زبان اور کلچر یہاں تک کہ اپنے مذہبی اعتقاد اور میلان میں گرچہ مختلف ہیں لیکن اپنے جذبۂ حب الوطنی اور آپسی تعلقات کی پاسداری میں ایک رنگ میں رنگے ہوئے ہیں۔ یہی اس ملک کی قوت کا سرچشمہ اور ترقی کا راز رہا ہے۔ اگر صرف حجاب اور گھونگھٹ کی ہی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ یہ ہماری ثقافت کا اہم ترین جزء رہا ہے۔ چلمن، گھونگھٹ اور پردوں کے ذکر سے تو نام نہاد ترقی پسند ادیبوں اور قلم کاروں کو بھی آزادی میسر نہ ہوسکی بلکہ حسن