اس اطلاع پر یقین کرنا مشکل ہے کہ کانگریس کے لیڈر راہل گاندھی کے ایک ٹویٹ سے ناراض ہوکر آسام میں ایک ہزار ایف آئی آر درج کی گئیں۔ انگریزی روزنامہ’’دی ٹیلی گراف‘‘ نے اپنی رپورٹ میں مذکورہ اطلاع دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی یووا مورچہ کے صدر سدھانکو انکور بروا نے اخبار مذکور سے گفتگو کرتے ہوئے اس کی تصدیق کی ہے۔ راہل گاندھی کے جس ٹویٹ (مورخہ ۱۰؍ فروری) کے خلاف ایف آئی آر کا سیلاب آگیا، اُس کے متن کا مفہوم تھا: ’’ ہندوستان ایک ہے کشمیر سے کیرالا تک اور گجرات سے مغربی بنگال تک۔‘‘
بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حلیف تنظیموں کو ممکنہ طور پر اعتراض راہل کے ’’گجرات سے مغربی بنگال‘‘ کہنے پر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے شمال مشرقی ریاستیں حذف ہوجاتی ہیں۔ یہ راہل کا سہو ہے جس کیلئے اُنہیں معذرت کرنی چاہئے۔ اگر اُن سے وضاحت طلب کی جاتی اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا جاتا تو ہم اس کالم کیلئے اس موضوع کا انتخاب نہ کرتے۔ یہ موضوع ایف آئی آر کی تعداد (ایک ہزار) کے سبب منتخب کیا گیا۔ آخر اس کا معنی کیا ہے؟ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی یووا مورچہ کے کیڈر کے پاس اتنا وقت ہے کہ جس کا جی چاہا اس نے ایف آئی آر درج کروا دی؟ ہمارے خیال میں ملک کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ محض ایک ٹویٹ سے ناراض ہوکر ایف آئی آر کا ڈھیر لگا دیا گیا ہو۔
دہلی فسادات کے دوران ایک واقعہ کے خلاف پانچ ایف آئی آر داخل کی گئی تھیں۔ جب معاملہ عدالت پہنچا تودہلی ہائی کورٹ کے جسٹس سبرامنیم پرساد نے ایک ایف آئی آر کو باقی رکھتے ہوئے دیگر چار کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ ایک ہی معاملے کے خلاف ایک سے زائد ایف آئی آر قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اُدھو ٹھاکرے کے خلاف شیو سینا اور کانگریس کے سابق لیڈر نارائن رانے، جو اَب بی جے پی میں ہیں، کے ایک بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مہاراشٹر کے مختلف شہروں میں ۱۰؍ ایف آئی آر داخل کی گئی تھیں۔ تب بھی یہ موضوع زیر بحث آیا تھا۔ تب ہی قانون کے ماہرین نے کہا تھا کہ ایسی صورت میں تمام ایف آئی آر کو یکجا کردیا جاتا ہے کیونکہ ایک ہی ’’جرم‘‘ کیلئے نہ تو ایک سے زائد مقدمات قائم کئے جاسکتے ہیں نہ ہی ملزم کو ایک سے زائد مرتبہ گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اس نکتے پر ملک کی کئی عدالتیں کہہ چکی ہیں کہ ایک سے زائد ایف آئی آر کی کوئی منطق نہیں ہوسکتی۔ حالیہ برسوں میں سیاسی بیانات کا جواب سیاسی بیانات سے دینے کے بجائے ایف آئی آر درج کرانے کا طریقہ اپنایا جانے لگا ہے چنانچہ بیک وقت کئی پولیس اسٹیشنوں حتیٰ کہ کئی شہروں میں ایف آئی آر درج کرا دی جاتی ہیں۔ یہ وقت کا کتنا بڑا ضیاع ہے اس کا احساس کسی کو نہیں۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اس سے پولیس اسٹیشنوں اور عدالتوں پر کتنا بوجھ پڑتا ہے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے راہل گاندھی کے خلاف نہایت نازیبا کلمات ادا کئے تو کانگریسی کارکنان برہم ہوئے اور ایک سے زائد شہروں میں ایف آئی آر درج کرائیں مگر ان کی تعداد بھارتیہ جنتا پارٹی یووا مورچہ کی ایف آئی آر کے مقابلے میں آٹے میں نمک جیسی ہے۔ شاید کانگریسی کارکنان
کچھ لوگوں کو اپنے وقت اور توانائی کی فکر نہ ہو تو نہ سہی مگر اُنہیں بھی سسٹم کی فکر کرنی چاہئے۔ ہر اُس عمل سے پرہیز ضروری ہے جو سسٹم پر بوجھ بنے۔ جتنے ایف آئی آر، سسٹم پر اُتنا بوجھ۔ یہ ایسا عمل ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔