مودی سرکار کی غیر موثر اور بے اثر پالیسیوں پر ویسے تو پورا ملک کسی نہ کسی انداز میں تنقیدیں کررہا ہے لیکن سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کھل کر اور ایک ایک پالیسی کے تعلق سے تنقید کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی اور ان کی حکومت کی پول کھول دی ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت کی پالیسیاں کم فہم ، تفرقہ انگیز اور متکبرانہ ہیںجس کی وجہ سے معیشت بری طرح سے ڈگمگاگئی ہے، مہنگائی اور بے روزگاری روزانہ کی بنیادپر بڑھ رہی ہے، سرکاری ادارے متاثر ہیں، سماجی سطح پر انتشار ہے اور سیاسی حالات بھی دگرگوں ہیں لیکن حکومت اپنی پالیسیوں میں اصلاحات کے بجائے مسائل کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو ٹھہرا نے میں لگی ہوئی ہے۔ڈاکٹر سنگھ نے پنجاب کے ووٹروں کے نام ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ پچھلے دنوں’ پنجابیت‘ کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس سلسلے میں وہ پنجاب کے لوگوں کے درمیان آکر بات کرنا چاہتے تھے لیکن صحت کی وجہ سے آ نہیں پارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے عوام اسمبلی انتخابات میں پنجابیت کی شان کی حفاظت کیلئےکانگریس پارٹی کو ووٹ دیں کیوں کہ بی جے پی کو ووٹ دے کر کچھ نہیں ملے گا سوائے جھوٹے وعدوں کے۔
پنجابیت کے نام پر کانگریس کیلئے ووٹ مانگے
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا کچھ دن پہلے وزیر اعظم کی حفاظت کے نام پر بی جے پی کی طرف سے پنجاب کے وزیر اعلیٰ سردار چرنجیت سنگھ چنی اور وہاں کے لوگوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی جسے کسی بھی لحاظ سے درست عمل نہیں مانا جا سکتا۔کسانوں کی تحریک کے دوران بھی پنجاب اور پنچابیت کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ جن پنجابیوں کی جرأت، بہادری، حب الوطنی اور قربانی کو پوری دنیا سلام کرتی ہے، ان پنجابیوں کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا گیا۔ پنجاب کی بہادر مٹی سے پیدا ہونے والے ایک سچے ہندوستانی کی حیثیت سے مجھے ان واقعات سے دکھ پہنچا ہے۔
معاشی پالیسیوں پر تنقید کی
سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جو دنیا کےمشہور ماہرین معاشیات میں سے ایک ہیں ،نے مرکزی حکومت کی معاشی پالیسیوں پراسے گھیرتے ہوئے کہا کہ اسے معیشت کی ذرا بھی سمجھ نہیں ہے۔ ان کی غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک معاشی بحران میں پھنس گیا ہے اور بے روزگاری عروج پر پہنچ چکی ہے۔ کسان، تاجر، طلبہ، خواتین سبھی پریشان ہیں۔ ملک میں سماجی ناہمواری بڑھ رہی ہے۔عوام پر قرض کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے جبکہ غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے لیکن حکومت اعداد و شمار کی بازی گری کرکے دعویٰ کر رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان اس وقت اپنی تاریخ کی سب سے بڑی اور بھیانک کساد بازاری کے دہانے پر کھڑا ہے۔ معیشت کی حالت اتنی دگرگوں ہو گئی ہے کہ اسے دوبارہ پٹری پر آنے میں کئی برس لگ جائیں گے ۔ روزگار کا حال اس سے بھی زیادہ برا ہے۔ کیا یہ مودی سرکا رکو نظر نہیں آرہا ہے؟ یا پھر وہ ریت میں سر گاڑنے کو ترجیح دے رہی ہےلیکن اس سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
پالیسی اور نیت میں کھوٹ کا الزام
مودی حکومت کی پالیسی اور نیت دونوں میں کھوٹ بتاتے ہوئے ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا کہ اس سرکار کی ہر پالیسی میں خود غرضی ہے اور نیت میں نفرت اور تقسیم ہے۔ اپنی خود غرضی کی تکمیل کے لئے لوگوں کو ذات پات، مذہب اور علاقے کے نام پر تقسیم کرکے آپس میں لڑایا جا رہا ہے۔ اس حکومت کی قوم پرستی نقلی، کھوکھلی اور خطرناک ہے۔ ان کی قوم پرستی ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی برطانوی پالیسی پر منحصر ہے۔
وزیر اعظم کے عہدہ کا وقار مجروح کرنے کا الزام
ڈاکٹر سنگھ نےمودی پر وزیر اعظم کے عہدے کے وقار کو مجروح کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ میں نے وزیر اعظم کے طور پر دس سال کام کرتے ہوئے خود زیادہ بولنے کے بجائے اپنے کام کے بولنے کو ترجیح دی۔ ہم نے کبھی اپنے سیاسی فائدے کے لیے ملک کو تقسیم نہیں کیا۔ کبھی سچائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی ۔ملک اور عہدے کے وقار کو کبھی کم نہیں ہونے دیا، ہم نے ہر مشکل کے باوجود بین الاقوامی سطح پر ہندوستان اور ہندوستانیوں کی عزت کو بلند کیا۔
آئینی اداروں کو مسلسل کمزور کرنے پر تشویش ظاہر کی
ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کہا کہ اس حکومت کو آئین پر یقین نہیں جو ہماری جمہوریت کی بنیاد ہے اسی لئے آئینی اداروں کو مسلسل کمزور کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ مسئلہ صرف ملک کے اندر نہیں ہے، یہ حکومت خارجہ پالیسی کے محاذ پر بھی مکمل ناکام ثابت ہوئی ہے۔ چینی فوجی پچھلے ایک سال سے ہماری سرزمین پر بیٹھے ہیں لیکن اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے پرانے دوست ہم سے مسلسل دور ہوتے جا رہے ہیں اور پڑوسی ممالک سے تعلقات بھی خراب ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ خارجہ پالیسی کے معاملے میں ملک جس طرح ناکام ہو چکا ہے، اس کی یہ حالت دیکھ کر امید ہے کہ اب اقتدار پر قابض حکمرانوں کو سمجھ آ گئی ہو گی کہ ملکوں کے تعلقات لیڈروں کوزبردستی گلے لگانے، انہیں جھولا جھلانےیابن بلائے بریانی کھانےکے لئے پہنچ جانے سے بہتر نہیں ہوتے۔ حکومت کو یہ بھی سمجھنا چا ہئے کہ خود کی صورت بدلنے سے سیرت نہیں بدلتی۔