ایس ٹی بسیں مہاراشٹر کی لائف لائن کہلاتی ہیں لیکن گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے ایس ٹی ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے یہ بسیں پوری طرح سے بند ہیں۔اس وجہ سے جہاں ایس ٹی انتظامیہ کو روزانہ لاکھوں روپے کے محصول کا نقصان ہو رہا ہے وہیں ملازمین کیلئےبھی پریشانیاں کھڑی ہو گئی ہیںلیکن ان حالات میں سب سے زیادہ دقتوں کا سامنا اگر کسی کو کرنا پڑرہاہے تو وہ مسافر ہیں۔اندرونِ مہاراشٹرعام آدمی کیلئے سفر کا واحد ذریعہ ایس ٹی بسیں ہیں۔کورونا کے پیش نظر ٹرینوں میں عائد پابندیوں کی وجہ سے ایس ٹی بسوں پر انحصار اور بھی زیادہ بڑھ گیا ہے، ایسے میں اُن کی ہڑتال نے مسافروں کو بے یارومددگار کردیا ہے۔ اسی طرح مہاراشٹر کے دیہی علاقوں کے طلبہ کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے جو اپنے اسکول اور کالج تک بسوں کے ذریعہ پہنچتے ہیں۔ ۲۲؍ نومبر سے اسکولوں اور کالجوں کے کھلنے کے باوجود وہ وہاں تک پہنچ نہیں سکے اور وہ پہلے ہی دن غیر حاضر رہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ اسکول اور کالج کھولنے کے اعلان کے ساتھ ہی انتظامیہ کو اس جانب توجہ دینی چاہئے تھی۔
ملکا پور ایس ٹی بس ڈپو جوسیکڑوں مسافروں کیلئےضلع کے صدرمقام تک جانے کا واحد مرکز ہے مگر ایس ٹی بسوں کی ہڑتال کی وجہ سے وہاں ہو کا عالم ہے۔ جو چند ایک مسافر وہاں بھولے بھٹکے پہنچ جاتے ہیں ان کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ بسوں کے نہ ہونے کی وجہ سے رکشا والوں کی بن آئی ہے لیکن اندرون شہر وہ رکشا چلانے والے وہ افراد بھی پریشان ہیں جن کے کاروبار کا انحصار ایس ٹی سے آنے والے مسافروں پر تھا۔ ملکا پور ڈپو پر موجود اکرم شیخ جنہیں بلڈانہ جانا تھا، نےانقلاب کو بتایا کہ ’’گزشتہ کئی دنوں سے بسوں کی ہڑتال نے پریشان کررکھا ہے۔ نہ بس آتی ہے اور نہ کچھ بتایا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ مجبوراً رکشا سے سفر کرنا پڑتا ہے مگر حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رکشا ڈرائیور بس کےمقابلے میںکئی گنا زائد کرایہ وصول کررہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے مارے ایسے بہت سے مسافر ہیں جو بسوں پر منحصر ہیں لیکن بسیں بند ہونے کی وجہ سے ان دنوں وہ شدید پریشانیوں کے شکار ہیں۔ لاک ڈاؤن نے پہلے ہی سے مالی طور پر تنگی میں مبتلا کردیا ہے، اس پر ایس ٹی کی ہڑتال نے اس سفر کو مہنگا کرکے جیب پر بوجھ بڑھا دیاہے۔
کچھ یہی حال بھساول بس اسٹینڈ کا بھی تھا جہاں پر ایک دو بسیں مشکل سے نظر آئیں لیکن وہ بھی مسافروں کی تعداد کے آگے ناکافی تھیں۔وہاں موجود ایک مسافر نیلیش کمار نے بتایا کہ انہیں بیاول جانا ہے لیکن بس دستیاب نہیں ہے۔رکشا تو ہیں لیکن کرایہ زیادہ ہے اور وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے کرکے جانا پڑتا ہے۔نمائندے نے ملکا پور ڈپو اور بھساول ڈپو کے انتظامیہ سے گفتگو کی کوشش بھی کی لیکن وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔کچھ رکشا والوں سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ جو رکشا دو شہروں کے درمیان چل رہے ہیں انہیں تو فائدہ ہے لیکن اندرون شہر چلنے والے رکشا والوں کو بہت پریشانی ہے۔ حالات یہاں تک ہیں کہ کچھ رکشا والوں نے دیگر کاروبار بھی شروع کر دیا ہے۔رحمت عزیز خان نے بتایا کہ وہ رکشا چلانے کے ساتھ اب سبزیاں بھی بیچ رہے ہیں۔گھر چلانے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔
خیال رہے کہ گزشتہ تین ہفتوں سے یہ ہڑتال جاری ہے۔ اس درمیان حکومت اورمہاراشٹر اسٹیٹ روڈ ٹرانسپوریٹ کارپوریشن کے ملازمین کے ساتھ کئی دور کی گفتگو ہوچکی ہے مگر اب تک ہڑتال کا یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں سکا ہے۔