لکھنؤ: اتر پردیش میں بڑھتے جرائم اور قانون کی ابتر صورتحال پر اب سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیمیں اور عام لوگ بھی آوازیں بلند کر رہے ہیں۔ خاص طور پر پولیس حراست میں ہونے والی اموات اور خواتین کے حوالے سے بڑھتے جرائم نے امن پسند شہریوں کا سکون چھین لیا ہے۔ سرکاری دعوے اور کاغذی ریکارڈ بھلے ہی اتر پردیش کے جرائم میں غیر معمولی کمی بتا رہے ہوں لیکن زمینی سچائی یہی ہے کہ قتل اور آبرو ریزی کی وارداتوں نے دیہات قصبات اور بڑے شہروں کے منظر ناموں کو تبدیل کردیا ہے اور سماج کا بڑا طبقہ عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا ہے۔ اس باب میں سماج وادی پارٹی اور کانگریس پہلے ہی حکومت پر سخت تنقیدیں کرتی رہی ہیں اور اب عاپ نے بھی واضح طور یہ اظہار کیا ہے کہ اتر پردیش میں آئین و قانون نام کی کوئی چیز نہیں ۔ اہم بات یہ ہے بھی ہے کہ اب اتر پردیش کی یوگی حکومت پر صحافیوں اور کئی پارٹی کے اہم لیڈروں کی جاسوسی کرائے جانے جیسے الزام بھی لگ رہے ہیں اور اس جاسوسی کے کام میں ایس ٹی ایف کو استعمال کئے جانے کی بات بھی سامنے آئی ہے۔
عاپ کے ممبر آف پارلیمنٹ اتر پردیش کے انچارج سنجے سنگھ نے صحافی ہیمنت تیواری اور سنجے شرما کے ذریعے لگائے گئے الزامات کو نہایت حساس اور اہم قرار دیتے ہوئے حکومت کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے رول پر بھی سوالیہ نشان لگائے ہیں۔ سنجے سنگھ کہتے ہیں کہ ایس ٹی ایف جرائم کو روکنے کے لئے ہے یا صحافیوں اور لیڈروں کی جاسوسی کرنے کے لئے ؟ اس سے قبل پرینکا گاندھی اور اکھلیش یادو نے بھی بار بار یہی کہا ہے کہ اتر پردیش میں آئین و قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔
پولس عوام کے تحفظ اور فلاح کے لئے نہیں بلکہ حکومت کو فائدہ پہنچانے کے لئے سرکاری مشینری کی طرح کام کررہی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ معروف سماجی کارکن میگسے سے ایوارڈ یافتہ ،سندیپ پانڈے نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اتر پردیش میں جس انداز کی بد عنوانیاں اور شدت پولس کی جانب سے دیکھنے کو ملی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی سندیپ پانڈے یہ بھی کہتے ہیں کہ یوں تو پولس کا رول عوام مخالف ہے ہی لیکن مسلم طبقے کے خلاف جس طرح کارروائیاں کی جارہی ہیں اس سے یہ محسوس ہوتا ہے جیسے شدت پسند لوگوں نے وردیاں پہن لی ہیں۔ یہ ہمارے دیش اور سماج کے لئے نہایت افسوسناک اور قابلِ مذمت ہے۔ عاپ کی نیلم یادو واضح طور پر کہتی ہیں کہ اس اقتدار میں بہو بیٹیاں محفوظ نہیں ہیںپیلی بھیت کے برکھیڑا میں اجتماعی عصمت دری کے بعد خواتین ونگ کی ریاستی صدر نیلم یادونے 11ویں جماعت کی طالبہ کے قتل پر حکومت کی سخت مذمت کی ہے واضح رہے کہ پیلی بھیت کے برکھیڑا میں 11ویں جماعت کی ایک طالبہ کو جو کوچنگ کے لیے گئی تھی۔ اس کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور پھر قتل کا معاملہ اتر پردیش میں آئین و قانون کی اصل تصویر پیش کرتا ہے۔ نیلم کہتی ہیں ،یوپی میں ایک کے بعد ایک عصمت دری کے دل دہلا دینے والے واقعے سامنے آ رہےہیں لگتا ہے کہ یہاں یوگی حکومت عصمت دری کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جس کی وجہ سے عصمت دری کرنے والوں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ اس طرح کے شرمناک واقعات کو مسلسل انجام دے رہے ہیں۔
عاپ خواتین ونگ کی صدر نیلم یادو نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ نے ایک بار پھر یوگی حکومت کی ناکامی کو بے نقاب کر کے بہنوں، بیٹیوں اور ان کے والدین کو خوفزدہ کر دیا گیا ہے۔ لگاتار ہو رہے اس طرح کے واقعات بتا رہے ہیں کہ یوگی راج میں بہن بیٹیاں کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ نیلم یادیو کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کی وجہ سے بیٹیاں اسکول جانے سے ڈرتی ہیں۔ اس لیے والدین بھی انکی حفاظت کے لیے پریشان ہیں۔ یوگی حکومت خود اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے کہ اس نے ریاست میں بیٹیوں کے لیے بے خوف ماحول بنایا ہے، جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس حکومت میں خواتین کے خلاف جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ سلطان پور کے کادی پور میں چھیڑ چھاڑ کے خلاف احتجاج کرنے پر ہیڈ مین نے پیٹرول چھڑک کر لڑکی کو جلا دیا۔ میرٹھ میں اغوا اور عصمت دری۔ بانڈہ میں ماں بیٹی پر تیزاب پھینک دیا گیا جب کہ دارالحکومت کے وبھوتی کھنڈ میں ڈاکوؤں نے بیٹی پر حملہ کرکے ماں کی چین چھین لی۔ عصمت دری کرنے والوں کو تحفظ دینے والی اس حکومت سے کوئی امید باقی نہیں ہے۔
نیلم یادو نے کہا کہ وزیر اعلیٰ خواتین اور بیٹیوں کے لیے محفوظ ماحول پیدا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ ہاتھرس اور کانپور سے لے کر وزیر اعلی کے شہر گورکھپور تک لڑکیوں اور خواتین کے خلاف گھناؤنے جرائم ہوئے ہیں۔ ہر ضلع میں یہی صورتحال ہے۔ اس کے بعد بھی یوگی حکومت اتر پردیش کی خواتین اور لڑکیوں کو مشن شکتی، بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ جیسے نعروں اور کاغذی مہم کے ذریعے ہی پیش کرنے کا کام کر رہی ہے۔ اتر پردیش میں خواتین اور لڑکیوں کی شناخت کے ساتھ آئے دن کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ اہم اور خاص بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور ان کے نمائندوں کے بیانات پر بھلے ہی مکمل طور پر یقین نہ کیا جاسکے لیکن زمینی حقیقتیں اور سچائیاں بھی حکومت کے خلاف گواہی دے رہی ہیں۔