دورہ امریکہ کے دوران پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو سوشل میڈیا پر جہاں کچھ لوگ ‘مین آف پیس’ یا امن کا سفیر کہہ رہے ہیں تو بعض القاعدہ اور آئی ایس آئی سے متعلق ان کے بیان پر تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر یہ بحث سرگرم ہے کہ آیا واقعی پاکستانی سیاسی قیادت، بالخصوص عمران خان، نے ایک نئی ‘ڈاکٹرائن’ یا نظریہ اپنا لیا ہے، یا یہ محض ایک ’اعتراف‘ ہے جسے وزیراعظم عمران خان سمیت متعدد سیاسی رہنما کئی مرتبہ دہرا چکے ہیں۔
انڈیا کے نیوز چینلز نے تو اسے پاکستان کی جانب سے ’دہشت گردی کی پشت پناہی‘ کا بڑا اعتراف قرار دے دیا اور اسے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ہیوسٹن میں خطاب سے جوڑ دیا جس میں انھوں نے پاکستان کا نام لیے بغیر یہ کہا تھا کہ ‘ان لوگوں نے انڈیا کے خلاف نفرت کو ہی اپنی سیاست کا محور بنا دیا ہے۔ یہ لوگ وہ ہیں جو امن نہیں چاہتے، دہشت گردی کے حامی ہیں اور دہشت گردوں کو پالتے پوستے ہیں۔’
’ایسے لوگوں کو بھی مسئلہ ہے جن سے اپنا ملک نہیں سنبھلتا‘
امریکہ میں وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو کے دوران اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی سے متعلق سوال کے جواب یہ کہا کہ نائن الیون سے قبل افغانستان میں ‘پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی نے القاعدہ کی لڑنے کے لیے تربیت کی تھی۔’
تھنک ٹینک ‘کونسل فار فارن ریلیشنز’ کی ایک تقریب میں عمران خان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی پر حکومتی سطح پر تحقیقات ہوئیں۔ اس پر عمران خان کا جواب تھا کہ انھیں اس پر ہوئی تحقیقات کے بارے میں علم نہیں البتہ انھوں نے ماضی پر روشنی ڈالنے پر زور دیا۔
‘مجھے معلوم ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن اس حوالے سے قائم ہوا تھا مگر میں اس کے نتیجے سے واقف نہیں ہوں۔ لیکن جو بات میں کہہ سکتا ہوں وہ یہ کہ پاکستان کی فوج اور آئی ایس آئی نے القاعدہ اور دیگر گروہوں کی افغانستان میں لڑنے کے لیے تربیت کی تھی چنانچہ فوج کے ان کے ساتھ تعلقات لازماً ہونے تھے۔’
‘جب ہم نے گیارہ ستمبر کے بعد 180 ڈگری سے پالیسی بدل لی اور ان گروہوں کے خلاف کارروائی کی تو تمام حلقوں، بشمول فوج کے اندر کچھ عناصر نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ چنانچہ پاکستان میں کئی حملے اندر سے ہوئے جن میں صدر جنرل پرویز مشرف پر ہونے والے دو حملے بھی ہیں جو فوج کے اندر سے کیے گئے۔’
تاہم انھوں نے اپنے جواب کے اختتام پر یہ کہا کہ ‘اس معاملے پر صدر اوباما تک کا بیان موجود ہے کہ پاکستان کے آئی ایس آئی کے سربراہ اور آرمی چیف کو (اساماکی موجودگی کے بارے میں) علم نہیں تھا اور اگر ایسا کچھ (تعلق) تھا تو یہ نچلے حلقوں پر ہوگا۔’
دفاعی تجزیہ کار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب وزیراعظم عمران خان کے اس بیان سے اتفاق نہیں کرتے۔ انھوں نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ‘یہ ٹریننگ اس وقت ہوئیں جب سوویت یونین کے خلاف جہاد تھا۔ القاعدہ کا کوئی تعلق تھا نہ اس کا کوئی وجود تھا۔’
امجد شعیب کے مطابق افغانستان میں کسی کا مرکزی کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے طالبان طاقتور ہوئے اور اس میں پاکستان کی فوج اور انٹیلیجنس کا کوئی کردار نہیں تھا۔
‘افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہونے تک ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہمارے لیے یہ قابل اعتبار لوگ نہیں تھے کیونکہ ہمارے ساتھ متعدد معاہدوں کے باوجود یہ واپس جا کر آپس میں لڑنے لگ جاتے تھے۔’
اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی اور ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ پر امجد شعیب کا کہنا تھا کہ پاکستان نے امریکہ کو اہم معلومات فراہم کیں تھیں۔ ‘اگر میں عمران خان کی جگہ ہوتا تو ان سے جواب میں نائن الیون پر سوال کرتا اور پوچھتا کہ کیا اس میں سی آئی اے ملوث تھی۔‘
’انھیں غلطی سے کسی نے مودی کی تقریر دے دی‘
سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کی رائے کے مطابق عمران خان کا بیان نریندر مودی کے بیان کی تائید کرتا ہے۔ انڈین صحافی آدتیا کول نے عمران خان کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ’اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے۔‘ تاہم امجد شعیب نے اس تاثر کو غلط کہا۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے ’ذہن میں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مجاہدین اور طالبان کو آپس میں مکس کر دیتے ہیں۔ ان کے ذہن میں کچھ پرانی باتیں ہیں اور میرا نہیں خیال وہ صحیح طرح تیار تھے۔’