ہم بہت ساری چیزوں کا بوجھ لادے رہتے ہیں۔ اس سے دھیرے دھیرے دماغ بھاری ہوتا جاتا ہے۔ جس طرح نجی قرض دہندگان اونچی شرحوں پر سود دیتے ہیں، قرض دار تاعمر سود ہی دیتا رہتا ہے۔ اس کے بعد بھی قرض نہیں اترتا۔ دماغ پر بوجھ کی حالت بھی ایسی ہی ہے۔ اگر وقت پر اس سے نجات نہ ملے تو سود کے ساتھ اصل رقم بھی بقایا رہتی ہے۔ اس لئے دماغ پر ہر دن چڑھنے والے بوجھ سے نجات کی باقاعدہ کوشش ہو۔
راجستھان، جئے پور سے سنجیو/ جیا اگروال نے لکھا ہے ’’ چھوٹی چھوٹی باتیں اکثر دماغ میں بھری پڑی رہتی ہیں۔ ان سے رشتے سلجھنے کی بجائے الجھتے زیادہ ہیں۔ اس کا کیا کیا جائے‘‘۔ میرے خیال میں اس کا سب سے آسان اور سادہ طریقہ ہے، خود کو آزاد کرتے رہنا۔
اسے ایسے سمجھئے۔ دو دن پہلے جلدبازی، ٹھیک سے نہ سمجھ پانے کی وجہ سے میرے پیارے دوست نے میری کہی ہوئی بات کے بالکل برعکس رویہ اپنایا۔ میں نے پوری بات سمجھے بغیر ہی ناراضگی ظاہر کر دی۔ مجھے بعد میں محسوس ہوا کہ اس میں میری غلطی زیادہ ہے۔
میں نے اپنا احساس ظاہر کر دیا۔ اس عمل میں ایک گھنٹہ لگ گیا، کیونکہ مجھے دوسرے ضروری کام کرنے تھے۔ لیکن ایک گھنٹے دیر سے سہی، میں نے دن بھر کی توانائی ضائع ہونے سے بچا لی۔ دوسری، میرے اس رویہ سے میرے دوست کچھ بے چینی محسوس کر رہے تھے، وہ بھی فورا معمول کی حالت میں آ گئے۔ میں سمجھ سکتا ہوں ان کو بھی ویسی ہی تکیلف ہوئی ہو گی جیسی مجھے ہوئی۔
جیسے ہی میں نے اپنی بھول کو تسلیم کیا، وہ ایک دم نرم ہو گئے۔ جو تناؤ ’ گھر‘ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، پیار اور ہمدردی کے چھوٹے سے ٹچ سے وہ ختم ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی کیا ضرورت تھی۔ میں آپ کو اچھے سے جانتا ہوں۔ میں نے کہا ’’ آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن میں اپنے بوجھ سے خود کو آزاد کر لینا چاہتا ہوں۔ ایسا نہیں کرنے پر تناؤ دماغ میں بھرا رہتا‘‘۔
ایسا کرنے پر بھی ضروری نہیں کہ دماغ پوری طرح سے بے چینی کی صورت حال سے باہر نکل پائے، لیکن نہیں کہنے پر، دماغ میں چیزوں کو دبائے رکھنے پر اس بات کا اندیشہ زیادہ ہوتا ہے کہ چیزیں خراب ہوتی رہیں۔ ہر دن اس طرح کے کچھ نہ کچھ واقعات زندگی میں جڑتے رہتے ہیں۔
یہ دماغ کے لئے بہت وزنی ثابت ہوتی ہے۔ اس لئے جتنا ممکن ہو ایسے بوجھ کو ہٹاتے رہیں۔ دماغ ہلکا رہے گا۔ خود کو چیزوں سے آزاد کرتے رہیں۔ دوسروں سے معافی مانگنا، انہیں معاف کرتے رہنا اپنے لئے سب سے ضروری کام ہے۔ اس سے ہم ٹنوں وزنی بوجھ سے آزاد ہو جاتے ہیں۔