دہشت گردی کو پناہ دینے والا پاکستان بربادی کی کگار پر پہنچ گیا ہے۔ وہاں کے اقتصادی حالات دن بدن بدتر ہوتے جارہےہیں۔ ترقی کا بھروسہ دینے والے عمران خان بھی وہی کر رہے ہیں جو سابق کے وزرائے اعظم کرتے تھے۔ یعنی اقتصادی حالات پر کام نہ کرکے دہشت گردوں کو پناہ دینا۔ حالت یہ ہے کہ پاکستان قرض میں ڈوبتا جارہا ہے۔
ملک کوچلانے کیلئے پاکستان مسلسل قرض لے رہا ہے۔ انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق مارچ 2019 تک پاکستان پر 85 بلین ڈالر یعنی ہندوستانی روپئوں میں 6 لاکھ کروڑ سے زیادہ کا قرض ہے۔ پاکستان نے مغربی یوروپ اور مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے بھاری بھرکم قرض لے رکھا ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ قرض چین نے دیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے کئی بین الاقوامی تنظیموں سے قرض لے رکھا ہے۔ اس سال مئی میں پاکستان 23ویں مرتبہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس 6 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کیلئے پہنچا تھا۔ آئی ایم ایف نے جو شرطیں رکھیں ہیں۔ اس کے مطابق موجودہ مالی سال میں پاکستان کے ریوینیو میں 40 فیصدی اضافہ ہونا چاہئے۔
کیا ہوگا پاکستان کا؟
اس سال جولائی کی رپورٹ میں آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ پاکستان کی اکنامی بیحد نازک موڑ پر ہے۔ در اصل پاکستان میں کوئی بھی ملک جلد سرمایہ کاری کرنا نہیں چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں بزنس کرنے کا ماحول بھی نہیں ہے۔ سرکاری کمپنیاں پہلے سے بڑے نقصان میں ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگر فوراً کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی ہے تو حالات اور بھی خراب ہوجائیں گے۔
بتادیں کہ سال 2000 سے 2015 کے درمیان پاکستان کی معاشی حالت اوسطً 4.3 فیصدی کی ریٹ بڑھی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگر فوراً کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی ہے تو حالات اور بھی خراب ہوجائیں گے۔