بابری مسجد- رام جنم بھومی معاملے میں چل رہی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ زمین کےمالکانہ حق کولےکرہندو فریق نرموہی اکھاڑہ، اوررام للا وراجمان کی عرضی کی غیرضروری طورپرمخالفت کررہا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے قیادت والی پانچ رکنی آئینی بینچ نے نرموہی اکھاڑہ کے ذریعہ یہ کہےجانے کی مذمت کی کہ ‘شبیت’ (عبادت گزار) ہونےکےناطے صرف اس کی عرضی ہی غورکرنےکی اہل ہے اورانوچردیوکی نندن اگروال کےذریعہ دیوتا ‘رام للا وراجمان’ کی طرف سے دائرعرضی پرغورنہیں کیا جانا چاہئے۔
بینچ نےدہائیوں پرانےاورسیاسی طورپرحساس معاملےمیں 12 ویں دن دلیلیں سنتے ہوئے کہا کہ "آپ کے (نرموہی اکھاڑہ) کے بحث اوراس کی نمبر-1 (رام للا) کے ذریعہ دائر مقدمہ کے درمیان کوئی ثنویت نہیں ہے۔ اگرمقدمہ (دیوتا اوردیگر) کے مقدمہ کو منظوری دی جاتی ہے تو ‘شبیت’ کی شکل میں آپ کا حق برقراررہتا ہے’۔ عدالت کی آئینی بینچ میں جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اورجسٹس ایس عبدالنظیرشامل ہیں۔
عدالت نے لگائی پھٹکار
آئینی بینچ نے کہا ‘آپ (نرموہی اکھاڑہ) اپنے ‘شبیت’ حقوق کا آزادانہ طورپردعویٰ کرسکتے ہیں۔ آپ متضاد علاقے میں غیر ضروری طورداخل ہورہے ہیں جہاں آپ کو جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کرنا سنی وقف بورڈ کا کام ہے’۔ عدالت نے نرموہی اکھاڑہ کی طرف سے پیش سینئروکیل سشیل جین سے پوچھا کہ اگردیوتا کی عرضی مسترد کردی جاتی ہے تو اکھاڑہ کس کا ‘شبیت’ رہے گا۔ اس نے کہا ‘آپ مسجد کے ‘شبیت’ نہیں ہوسکتے۔ اگرآپ کا مقدمہ کامیاب ہوتا ہے تویہ دیوتا کے خلاف ہوگا’۔ بینچ نے سشیل جین سے کہا کہ وہ منگل کو اس بارے میں نرموہی اکھاڑہ کا رخ بتائیں کہ کیا وہ دیوتا اوردیگر کے ذریعہ دائرمقدمہ کوخارج کرنے کی اب بھی مانگ کررہا ہے۔